(سید عاطف ندیم.پاکستان)آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی نے ایک بل منظور کیا ہے جس کے بعد صوبے کے اراکین اسمبلی، وزرا اور اسمبلی عہدیداران کی تنخواہوں میں پانچ گنا سے دس گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔پنجاب اسمبلی سے پیر کے روز عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی کے بل کی منظوری کے بعد رکن اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار روپے سے بڑھ کر چار لاکھ روپے ہو گئی ہے۔سب سے زیادہ اضافہ وزرا اور دیگر عہدیداران کی تنخواہوں میں کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پنجاب کے صوبائی وزیر کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی جو بل کی منظوری کے بعد نو لاکھ 60 ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہے۔ وزرا کی تنخواہ میں لگ بھگ دس گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اسی طرح پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں بھی لگ بھگ آٹھ سے دس گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر نو لاکھ 50 پچاس ہزار روپے کر دی گئی ہے اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ کو ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے بڑھا کر سات لاکھ 75 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
ایک پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ جو پہلے 83 ہزار روپے ماہانہ تھی اب چار لاکھ 51 ہزار روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ کے مشیروں کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔نظر ثانی بل کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ کے سپشل اسسٹنٹ کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے ماہانہ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ اراکین اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر کیا گیا ہے۔ ان کو ملنے والا ٹی اے ڈی اے، فری میڈیکل، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔
تنخواہوں پر نظر ثانی کے اس بل کی منظوری پر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کی اکثریتی حکومت کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے پنجاب حکومت کی طرف سے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے خیال میں یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کو حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف احمد خان بچھر نے اس بل پر اعتراضات اٹھائے۔جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما مونس الہی نے بھی اس اضافے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے پیسہ ضائع کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ان اراکین میں سے کسی کو بھی اس اضافے کی ضرورت نہیں اور یہ رقم کہیں اور خرچ ہونی چاہیے تھی۔