(سید عاطف ندیم.پاکستان)پاکستان میں مرکزی بینک کی جانب سے شرحِ سود میں کمی کو بعض ماہرین معاشی استحکام سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن ان کے نزدیک عوام پر اس کے فوری مثبت اثرات نہیں ہوں گے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مسلسل پانچویں بار ملک میں شرح سود میں دو فی صد کمی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد یہ 15 فی صد سے کم ہو کر 13 فی صد ہو گئی ہے۔ اس کمی کے ساتھ ہی سات ماہ میں ملک میں پالیسی ریٹ 900 بیسز پوائنٹ یا نو فی صد کم ہو چکا ہے۔تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح ساڑھے چھ سال کی کم ترین سطح پر ہے اور اس میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ مرکزی بینک کو شرح سود کم کرنے کا کافی موقع ملا۔ لیکن بینک نے جلد بازی کے بجائے مرحلہ وار اور بتدریج شرح سود میں کمی کی ہے جو کہ خوش آئند اور احتیاطی تدابیر کے عین مطابق ہے۔دیگر معاشی اشاریے مثبت ہونا بھی پاکستان کے معاشی استحکام کی طرف اشارہ دیتے ہیں۔ جاری کھاتے خسارے کے بجائے تین ماہ سے مثبت ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ترسیلاتِ زر ہیں جو پانچ ماہ میں 14 ارب 80 کروڑ ڈالر رہی ہیں۔یہ رقم گزشتہ سال کے اسی عرصے میں بھیجی گئی رقوم سے 34 فی صد زیادہ ہے۔ جاری کھاتوں کے مثبت رہنے کی دوسری وجہ تجارتی خسارے میں کمی ہے۔ اگرچہ پاکستان کی برآمدات میں محض نو فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن درآمدات میں تین فی صد کمی بھی آئی ہے۔ تجارتی خسارے میں گزشتہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کی نسبت سات فی صد کمی دیکھی گئی ہے اور یہ اس وقت آٹھ ارب 70 کروڑ ڈالر پر موجود ہے۔اس صورتِ حال سے پاکستان کو قیمتی زرِ مبادلہ بچانے اور قرضوں کی ادائیگی میں سہولت ملی ہے اور بیرونی شعبہ قدرے استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل، گیس، کوئلہ، گندم، اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں کمی یا کم از کم استحکام کے باعث پاکستان کے درآمدی بل پر اس کا بوجھ کم پڑا ہے اور اس سے ملک کے اندر بھی مہنگائی کا زور کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے اندر مہنگائی میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں مہنگائی اس قدر تیزی سے بڑھی ہے کہ پاکستانیوں کی قوت خرید بے تحاشہ کم ہوگئی ہے۔منڈی میں طلب کم ہونے کے ساتھ رسد بہتر ہونے سے مہنگائی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ماہرِ معیشت اور ٹاپ لائن سیکیورٹیز سے منسلک ریسرچرز کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام پر ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گے۔ان کے بقول حکومت نے رواں مالی سال کے لیے نو ہزار 800 ارب روپے کے سود کے اخراجات کا ہدف مقرر کیا تھا جو 17 سے 18 فی صد کے پالیسی ریٹ کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔تاہم ان کے مطابق شرح سود میں توقع سے زیادہ کمی، سیکیورٹیز کی واپسی اور بیرونی قرضوں میں کمی سے سود کا خرچ بہت کم ہو گا اور یہ آٹھ ہزار 500 ارب روپے تک رہے گا جس سے حکومت کو 1300 ارب کی بچت ہو گی۔ شرح سود کم ہونے سے تاجروں کے لیے قرضے سود پر حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ اس سے وہ یہ پیسہ نئی صنعتوں یا کاروبار کے قیام یا پہلے سے موجود صنعتوں اور کاروبار کی توسیع وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔اس سے عام لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ پیداوار میں اضافے کی توقع ہوتی ہے۔ یوں معیشت کا رکا ہوا پہیہ چلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کو غربت سے نکلنے اور معاشی نمو کے اثرات جنم لیتے ہیں۔اس وقت پاکستانی معیشت جس جمود کا شکار ہے اس سے نکلنا اس قدر آسان نہیں۔نئی صنعتوں، کاروبار کے قیام یا توسیع کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں کیوں کہ بجلی، گیس کی قیمت زیادہ ہے اور شہروں سے باہر بہتر انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے جب کہ ٹرانسپورٹیشن کی قیمت بھی زیادہ ہے۔عام لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے آئندہ 10 سے 15 برسوں تک سالانہ چھ سے سات فی صد معاشی نمو درکار ہے۔ جب کہ اس مالی سال مرکزی بینک نے پاکستان کی معاشی نمو ڈھائی سے تین فی صد کے درمیان رہنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ جی ڈی پی کی یہ معمولی شرح نمو ظاہر کرتی ہے کہ نئی ملازمتوں کی فراہمی اور پیداوار میں اضافے کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں اور ایسے لوگوں کی مشکلات مسلسل جاری رہیں گی جو غربت کا شکار ہیں یا غربت کی لکیر پر کھڑے ہیں۔
ادھر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی نے شرح 13 فی صد کرنے کے اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر کہا ہے کہ تاجر برادری کم از کم چار سو سے پانچ سو بیسز پوائنس (چار سے پانچ فی صد) کمی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر اسٹیٹ بینک نے اس میں معمولی کمی کی جو مایوس کن ہے۔ان کے بقول یہ کمی افراطِ زر میں کمی کے رجحان سے ہم آہنگ نہیں ہے جو نومبر میں چار اعشاریہ نو فی صد تک آ گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ شرح سود اب بھی بہت زیادہ ہے اور اس میں مزید اور بڑی کمی انتہائی ضروری ہے جو خطے اور دنیا کے دیگر ممالک سے ہم آہنگ ہو جو پانچ سے سات فی صد کے درمیان ہے۔جاوید بلوانی نے بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش کے پالیسی ریٹ کا حوالہ دیا جہاں شرح سود بالترتیب ساڑھے چھ فی صد، ساڑھے چار فی صد اور 10 فی صد ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ افراطِ زر سنگل ڈیجٹ (یک عددی) تک کم ہو گئی ہے لیکن یہ بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی کی وجہ سے نہیں ہے.ان کے بقول اس میں عالمی سطح پر اشیا اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان اور حکومت کی جانب سے کیے گئے انتظامی اقدامات اور زرعی پیداوار میں بہتری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔