(رپورٹ وائس آف جرمنی):سوامی انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایسٹرن کمانڈ کو یقینی بنانا تھا کہ گوریلا فورسز ’مشرقی بنگال میں پاکستانی فوجی دستوں کو حفاظتی کاموں میں الجھائیں‘، ’مشرقی میدانِ جنگ میں پاکستانی افواج کے حوصلے پست اور کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آسام اور مغربی بنگال کے خلاف کسی بھی جارحیت کے لیے ان کی لاجسٹک صلاحیت کو مسدود کریں‘، اور آخر کار ’پاکستان کی ہمارے خلاف جنگ چھیڑنے کی صورت میں‘ وہ باقاعدہ انڈین فوج کے شانہ بشانہ استعمال کی جائیں۔
مئی 1971 میں انڈیا کے آرمی چیف نے جنرل آفیسر کمانڈنگ، ایسٹرن کمانڈ کو ایک خفیہ حکم دیا جس سے ایک ایسی مہم کا آغاز ہوا جس کا خاتمہ پاکستان کے مشرقی حصے کی علیحدگی پر ہونا تھا۔دفاعی امور کے ماہرانڈین لکھاری پروین سوامی کے مطابق اس خفیہ حکم کو ’آپریشن انسٹرکشن 52‘ کا نام دیا گیا۔’اس کے ذریعے انڈیا کی افواج کو باضابطہ طور پر حکم دیا گیا کہ وہ ’بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کی آزادی کی تحریک کی مدد کریں‘ اور ’مشرقی بنگال میں گوریلا کارروائیوں کے لیے لوگوں کو اسلحے سے لیس کریں اور تربیت دیں۔‘
’ان احکامات کو عملی جامہ پہنانے کا کام سوجن سنگھ اُوبن پر آن پڑا۔ بریگیڈیئر اُوبن (بعد میں میجر جنرل) ایک آرٹلری افسر تھے جنھیں سپیشل فرنٹیئر فورس (ایس ایف ایف) کی قیادت کے لیے چنا گیا تھا۔ یہ ایک خفیہ فوج تھی جسے امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مدد سے تبت میں چینی افواج پر حملوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔‘
تبت، چین اور انڈیا کے موضوعات پرلکھنے والے فرانسیسی نژاد مصنف کلاڈ آرپی نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں انڈیا کے وزیراعظم جواہرلال نہرو کے ان دو خطوط کا حوالہ دیا ہے جن میں انھوں نے چین کے خلاف 1962 کی جنگ میں امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔آر پی نے ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی دستاویزات اور کینتھ کونبوائے اور جیمز موریسن کی کتاب ’دی سی آئی اے سیکرٹ وار ان تبت‘ کے حوالوں سے امریکی اعلیٰ حکومتی اور سی آئی اے عہدیداروں کی انڈیا کی انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ بی این ملک اور دیگر اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیل لکھی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’امریکی عہدیداروں سے یہ وعدہ لینے کے بعد کہ ہماری (انڈیا کی) اس میں شمولیت ہمیشہ خفیہ رکھی جائے گی‘، ’سی آئی اے اور آئی بی نے کام کی تقسیم پر اتفاق کیا۔ سی آئی اے کی مدد سے آئی بی پانچ ہزار افراد پر مشتمل ٹیکٹیکل گوریلا فورس کو تربیت فراہم کرنے کا منصوبہ بنا۔’سی آئی اے کا فار ایسٹ ڈویژن تبت کے اندر طویل فاصلے تک مزاحمتی تحریک پیدا کرے گا اور شمالی نیپال میں تبتی آزادی کے جنگجو سی آئی اے کے تحت رہیں گے۔‘
لیکن آرپی لکھتے ہیں کہ سی آئی اے کے ساتھ یہ ’ہنی مون‘ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور تبتی فورس بالآخر سوجن سنگھ اوبن کی نگرانی میں چلی۔
تاہم پروین سوامی کے مطابق ’ایس ایف ایف جو کچھ عرصہ پہلے تک انڈیا کی بیرونی خفیہ سروس، ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ، یا ’را‘ کے مسلح ونگ کے طور پر کام کرتی رہی ہے چین میں کبھی نہیں لڑی۔‘سنہ 1962 میں قائم ہونے اور سی آئی اے سے تربیت پانے والی اس تنظیم کو ستمبر 1967 میں باقاعدہ طور پر انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے حوالے کر دیا گیا اور بعد میں انھیں مشرقی پاکستان میں استعمال کیا گیا۔سوامی کے مطابق ’جولائی 1971 میں انڈیا کی جنگی تاریخ کے مطابق پہلے بے قاعدہ دستوں کو مداری پور سے سرحد پار درانداز کروایا گیا۔‘
’110 گوریلوں کے اس پہلے گروپ نے چائے کے باغات، دریا کی کشتیوں اور ریلوے ٹریکس کو تباہ کیا۔ یہ ایسی کارروائیاں تھیں جنھوں نے فوجیوں کو الجھا دیا، مشرقی پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا اور تاریخ کہتی ہے ڈھاکہ، کومیلا اور چٹاگانگ کے درمیان مواصلات کو تباہ کر دیا۔‘
سوامی لکھتے ہیں کہ ’ستمبر 1971 تک انڈین تربیتی کارروائیوں میں ڈرامائی توسیع ہو چکی تھی اور ہر ماہ 20 ہزار گوریلوں کو تیار کیا جانے لگا۔ 10 کیمپوں میں ہر 100 تربیت پانے والوں کے ساتھ آٹھ انڈین فوجی پابند تھے۔‘