ہئیت التحریر الشام کی کامیاب بغاوت کا تجزیہ (قسط:8)…..حیدر جاوید سید
چوری شدہ شامی پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ترکی ہے۔ اردگان کے داماد کی کمپنی نے 2 ارب ڈالر کا تیل خریدا اور متعلقہ ترک وزارت نے 1.4ارب ڈالر کا
شام میں بشارالاسد کے خلاف حالیہ بغاوت جس طرح دس گیارہ دن میں کامیاب ہوئی اس کے مقاصد اور بغاوت کے سرپرست ممالک کے مفادات واضع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دو شامی بغاوتوں کے ایک اہم کردار محمد البشیر کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کی بابت پچھلے کالم میں عرض کرچکا داعشی کمانڈر کے طور پر محمدالبشیر کی شہرت کے دو حوالے بھی عرض کئے۔
ترکی محمد البشیر پر اتنا مہربان کیوں ہے کہ ترک انٹیلی جنس چیف اسے اپنے ہمراہ لے کر دمشق پہنچا اور پھر ’’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ کے مصداق اس کے نگران وزیراعظم ہونے کا اعلان کردیا گیا؟ اس دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ بغاوتوں کے دوران جب داعش حلب اوراس سے ملحقہ علاقوں پر قابض تھی تو ترک حکمران رجب طیب اردگان کے داماد کی آئل کمپنی داعش سے شامی پٹرولیم کی چوری شدہ مصنوعات خریدتی رہی
تب اس امر کی تصدیق ہوئی کہ چوری شدہ شامی پٹرولیم مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ترکی ہے۔ اردگان کے داماد کی کمپنی نے 2 ارب ڈالر کا تیل خریدا اور متعلقہ ترک وزارت نے 1.4ارب ڈالر کا۔ چوری شدہ پٹرولیم مصنوعات محمد البشیر کی نگرانی میں فروخت ہوئیں۔
اس پچھلی بغاوت کی ناکامی پر بشارالاسد حکومت نے باضابطہ طور پر ترکی کو چارج شیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چوری کا تیل فروخت کرنے سے حاصل کی گئی رقم کا بڑا حصہ ترک بینکوں میں محفوظ ہے۔ اس وقت ترکی نے ہلکی پھلکی ڈھولک کی تال پر اس الزام کو مسترد کیا تھا لیکن اب سابق داعشی کمانڈر کی ترک انٹیلی جنس چیف کے ہمراہ دمشق آمد اور کچھ دیر بعد نگران وزیراعظم کے طور پر تقرری سے یہ معمہ حل ہی ہوگیا کہ ترکی کے بینکوں میں چوری شدہ شامی پٹرولیم فروخت کرنے کی رقم کس کے اکائونٹ میں تھی۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ محمدالبشیر کی نئی وضع قطع (داعش کمانڈر کے طور پر ان کی تصویر روایتی جنگجوئوں والی ہے اور نگران وزیراعظم والی جدید تراش خراش کی شخصیت اور جدید لباس والی) والی تصویر بہت اثاثوں سے مالک کا پتہ بتارہی ہے۔ ہماری دانست میں نکتہ سب سے اہم اور قابل غور ہے وہ یہ کہ امریکہ اسرائیل اور ترکی کے دیرینہ منصوبہ پر عمل ہوگا یعنی کیا شام تین سے چار حصوں میں تقسیم ہونے جا رہا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں شام کی پچھلی دو ناکام بغاوتوں کے برسوں سے رجوع کرنا ہوگا جب یہ کہا جارہا تھا کہ امریکہ اسرائیل اور ترکی اس امر پر رضامند ہیں کہ شام کے ایک حصے پر جنگجوئوں ( داعش وغیرہ) کی عمل داری تسلیم کرلی جائے دوسرے حصے میں نیم خودمختار کرد ریاست اور تیسرا حصہ اسرائیل کی نگرانی میں طفیلی ریاست کے طور پر قائم رہے۔ بہرطور حالیہ بغاوت کی کامیابی کے بعد شام کے بدلتے ہوئے منظرنامے کو سمجھنے کے لئے دو بیان اہم ہیں اولاً فلسطینی حماس کا اورثانیاً ہئیت التحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع ابو محمد الجولانی کا جنہوں نے چند دنوں میں اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ
’’شام میں آنے والی تبدیلی خطے میں ایران کے خطرناک منصوبے کے خلاف بڑی کامیابی ہے۔ ایران کے منصوبے خطے کے عوام کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوئے ایرانی عوام سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ ایران کے عرب خطے میں سیاسی مفادات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امریکہ، روس، چین بھی مشرق وسطیٰ میں سیاسی و معاشی مفادات پر استوار پالیسیاں رکھتے ہیں۔
اسرائیل کی ہمیشہ خواہش رہی کہ خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں مانع ہونے والا کوئی نہ ہو۔
ایران ایک طرف اپنے انقلاب کے بانی مرحوم آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کے اعلان کردہ ا لقدس آزادی کے پرگرام کو اپنی خارجہ پالیسی کا نکتہ اول سمجھتا قرار دیتا اور اس پر عمل کرتا ہے۔
دوسری جانب وہ لبنانی حزب اللہ کا گارڈ فادر بھی ہے۔ 2006ء میں لبنانی حزب اللہ نے جب طویل جدوجہد کے بعد اسرائیل کو جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور کیا تھا تو یہ عرب دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا جب اسرائیل کو کسی مقبوضہ علاقے سے بھاگنا پڑا۔
بلاد عرب ہی نہیں دنیا بھر کے تجزیہ نگار حیران تھے کہ ایک غیرریاستی تنظیم نے اپنے بل بوتے پر کیسے اسرائیلی ریاست کو جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس وقت لبنانی حزب اللہ کی فتح کے پیچھے ایران اورشام کھڑے دیکھائی دیئے۔
ایران نے حزب اللہ کو مالی اور عسکری وسائل فراہم کئے تھے (اب بھی کرتا ہے) اور شام میں بشارالاسد کی حکومت نے لبنانی حزب اللہ کے کارکنوں کیلئے ابتدائی عسکری تربیت کا اہتمام کیا تھا۔ حزب اللہ نے شام کے اس تعاون کا بدلہ چکاتے ہوئے بشارالاسد کے خلاف پچھلی دو بغاوتوں خصوصاً داعشی جنگجوئوں کی جارحانہ کارروائیوں اور شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے خلاف بشارالاسد حکومت کا عملی طور پر ساتھ دیا۔
امریکہ سمیت بلاد عرب اور باقی دنیا نے اس وقت اس امر کا اعتراف کیا کہ اگر حزب اللہ، ایران اور دوسری غیرشامی ملیشیائوں (ان میں الزینبیون بھی شامل ہے) نے شامی فوج کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو بشارالاسد رجیم جنگ ہار جاتی۔
یہ کہنا خلاف واقع نہ ہوگا کہ اگر 2011ء سے 2015ء کے درمیانی عرصے اوراس سے اگلے برسوں میں بشارالاسد رجیم کو حزب اللہ، ایران اور دیگر غیرمقامی ملیشیائوں کی حمایت اور عملی تعاون حاصل نہ ہوتا تو بشار رجیم اگلے دس برس اقتدار میں نہ رہتی۔
اس کامیابی میں روس اور چین کی مشرق وسطیٰ کے لئے حکمت عملی اور روس شام دفاعی تعاون کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔اب یہ امر غور طلب ہے کہ حالیہ بغاوت کے عرصے میں پچھلی بغاوتوں کے خلاف یہ مددگار کہاں چلے گئے؟
حالیہ کامیاب شامی بغاوت کے لئے وقت کے درست انتخاب پر بہرحال بغاوت کے پشت بانوں اور مددگاروں کو داد دینا ہوگی۔ اسرائیل کے خلاف ایران کی القدس آزادی والی ریاستی پالیسی کے اب تک کے نفع نقصان کا بھی تجزیہ ازبس ضروری ہے۔
اس طور ہمیں حالیہ جاری حماس اسرائیل جنگ کے آغاز سے اب تک کی صورتحال کو سامنے رکھنا ہوگا اس کے بغیر تجزیہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے ہر دو میں مشکل پیش آئے گی۔
ایران حماس کا سب سے بڑا مددگار ہے مگر اسی حماس نے بشار رجیم کے خلاف پچھلی دو ناکام بغاوتوں میں باغی تنظیموں اور بالخصوص دولت اسلامیہ عراق والشام سے اسی طرح کا عملی تعاون کیا جیسا تعاون ان برسوں میں اسرائیل نے کیا تھا سادہ لفظوں میں یہ کہ بشار رجیم کے خلاف حماس اور اسرائیل ہمیشہ سے ایک پیج پر تھے۔
حماس شامی جنگجوئوں اور داعش تعاون کے جواب میں شام نے اپنے ہاں قائم حماس کے سیاسی دفاتر بند کرکے خالد مشعل سمیت فلسطینی رہنمائوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ حالیہ شامی بغاوت سے قبل جو حماس اسرائیل جنگ شروع ہوئی اس میں ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے جو حکمت عملی اپنائی اس پر تنقید بھی ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ حماس کے اسرایئل پر حملے کسی ایسی سازش کا حصہ ہیں جس میں حماس جذباتی طور پر استعمال ہوگئی۔
تب یہ رائے رکھنے والے ایران نواز طبقوں کے لئے قابل گردن زدنی ٹھہرے تھے مگر اس جنگ (حماس اسرائیل) میں وسعت کے مرحلے میں لبنانی حزب اللہ کی شرکت اور پھر اسرائیل کی جوابی حکمت عملی نے حزب اللہ کے لئے تباہیاں کاشت کیں۔ موجودہ حالات میں یہ اعتراف نہ کرنا کہ اسرائیل نے حزب اللہ کی 90 سے 95 فیصد عسکری قوت کو ملیامیٹ کردیا ہے بالکل غلط ہوگا
اسی طرح یہ امر بھی دوچند ہے کہ غیرشامی ملیشیائوں سے تعلق رکھمنے والے عسکری رضاکار گزشتہ برس مئی کے بعد شام سے واپس جانا شروع ہوگئے تھے ۔
خود ایران نے بھی رواں برس کے اکتوبر تک اپنے عسکری رضاکار شام سے واپس بلالئے۔ حالیہ بغاوت کے وقت شام میں چند ایرانی دفاعی مشیر ہی رہ گئے تھے۔
حزب اللہ کو اسرائیل کے ہاتھوں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کے بعد حالیہ شامی بغاوت کے منصوبہ سازوں، پشت بانوں اور وسائل فراہم کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہی وہ موقع ہے جب بشارالاسد رجیم کے دانت کھٹے کئے جاسکتے ہیں کیونکہ اب شام میں کسی بھی طرح کی وہ غیرشامی ملیشیا موجود نہیں جو شامی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں سے لڑسکے
نیز یہ کہ لبنانی حزب اللہ جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں اس کے لئے بشار کی مدد کو پہنچنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔
پچھلی دو بغاوتوں میں ناکامی کے زخم چاٹنے والی قوتوں نے صورتحال کا بروقت اور درست ادراک ہی نہیں کیا بلکہ اپنے منصوبے پر بھی درست وقت میں عمل کیا اور نتیجہ حاصل کرلیا۔ (جاری ہے)