عوامی راج ہی مسائل سے نجات دلا سکتا ہے !….ناصف اعوان
عوام روئیں یا آہیں بھریں اس سے ارباب بست و کشاد کو کیا ان کی اولادیں خوشحال ہوں شاد ہوں بس ۔اب حکومت کے بہی خواہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ باہر کے ملکوں سے بھاری رقوم آرہی ہیں جبکہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ رقوم کہاں کہاں سے آرہی ہیں
ملک میں پایا جانے والا اضطراب اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ معاشی و سیاسی عدم استحکام ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔فریقین اسے ختم کرنا چاہیں تو یہ کام مشکل نہیں مگر چونکہ وہ اپنی انا کے حصار میں قید ہیں لہذا صورت حال تبدیل نہیں ہو رہی اور مسائل ہیں کہ آکاس بیل کی مانند بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور اگر پی ٹی آئی سول نافرمانی کا اعلان کرتی ہے تو چشم تصور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ منظر کیا ہو گا پھر امریکی پابندیاں بھی لگائی جارہی ہیں ظاہر ہے اس سے بیرونی سرمایہ میں کمی واقع ہو گی ۔ پھر یورپ ومغرب میں رہنے والے پاکستانیوں نے رقوم بھیجنا کم کر دیا تو بھی معاشی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے ؟ اب اگر حکومت عوام پر ٹیکس لگا کر خزانہ بھرتی ہے تو اس اقدام سے حکومت کے خلاف غم وغصہ پیدا ہوتا ہے ۔ اسے تو پہلے بھی عوامی نفرت کاسامنا ہے کیونکہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو نہیں پا سکی دوسری طرف نج کاری کرکے ملازمین کی تعداد گھٹانے جا رہی ہے بلکہ گھٹا چکی ہے ۔
عوام روئیں یا آہیں بھریں اس سے ارباب بست و کشاد کو کیا ان کی اولادیں خوشحال ہوں شاد ہوں بس ۔اب حکومت کے بہی خواہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ باہر کے ملکوں سے بھاری رقوم آرہی ہیں جبکہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ رقوم کہاں کہاں سے آرہی ہیں ۔ سٹاک ایکسچینج جس کے بارے میں بتایا گیا کہ کہ وہ اوپر ہی اوپر جا رہی ہے اب وہ نیچے آگئی ہے کہ جنہوں نے مزید اوپر لے جا نا تھا وہ تھک گئے ہیں اور ”ساہ“ لینے لگے ہیں پھر جب اس کی پرواز بلند تھی تو اس کے اثرات عوام کی صحت پر کیوں مرتب نہیں ہوئے لہذا سب بہلاوے ہیں دھوکے ہیں ان لوگوں (اہل سیاست )نے باریاں لگا رکھی ہیں کہا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صدر بننے جا رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم سوال یہ ہے کہ وہ آکر کیا کریں گے معیشت کی ڈوبتی تجارتی ناؤ کو کنارے لگا سکیں گے اگر اس حوالے سے ان کے پاس کوئی پروگرام ہے تو اسے سامنے لائیں مگر جاوید خیالوی کا خیال ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں یہ چوری کھانے والے مجنوں ہیں؟ ۔ہم اپنے گزشتہ کالموں میں تواتر سے یہ عرض کرتے چلے آرہے ہیں کہ موجودہ اذیت ناک نظام جب تک نہیں بدلتا کچھ نہیں ہونے والا اسی طرح حالات کی سنگینی باقی رہے گی ۔ضرورت اُس نظام کی ہے جس میں تعلیم و صحت مفت ہوں انصاف سستا اور آسان ہو روزگار کی فراہمی ریاست کے ذمہ ہو دولت چند لوگوں کے ہاتھ میں مرتکز نہ ہو اور مافیاز کمزور اور غریب عوام کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہ کرتے ہوں۔ آپ لینڈ مافیا ہی کو لیجئیے اس نے اندھیر مچا رکھا ہے رہائشی سکیموں کی آڑ میں اس کی کہانیاں زبان زد عام ہیں اسَی فیصد سکیمیں غیر قانونی ہیں ان میں سہولتوں کا فقدان ہے ان سے جو ماحولیات اور زراعت کو نقصان پہنچ رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے مگر کسی کوبھی اس کا خیال نہیں وہ خاموش ہیں اور مزے لے رہے ہیں لہذا یہ نظام زر و ہوس بدلے گا تب ہی حالات بدلیں گے ۔
اب جب عوام کی غالب اکثریت اس سے تنگ آچکی ہے تو اسے دوسرا راستہ دکھایا جا رہا ہے اسی نظام میں ہی رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے بعض عجیب قسم کے دانشور و مفکرین جن کے مفادات اس سے جڑے ہوئے ہیں اسی میں جنت نظیر نظاروں کی نوید دے رہے ہیں جبکہ ستتر برس میں یہی لوگ چہرے بدل بدل کر حکومتوں میں آتے اور جاتے رہے مگر ان سے غربت ختم ہوئی نہ ہی تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت مل سکیں اگرچہ اس وقت عمران خان کی صحت پالیسی جزوی طور سے بحال کی گئی ہے مگر وہ ایسے ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ۔ بہر حال ارباب اختیار اپنے گال سُرخ کرتے رہے مال سمیٹتے رہے پہلے کچھوے کی سی چال میں دولت سمیٹی جاتی اب پچھلے بیس برسوں میں خرگوش کی رفتار سے اینٹھی جارہی ہےلہذا ان سے توقع رکھنا محض دل کو بہلانا ہے ۔ خیر جو ہونا تھا وہ ہو چکا جو بگڑنا تھا وہ بگڑ چکا اب ہی اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیا جائے کیونکہ پنجابی میں کہتے ہیں ”ہلے وی ڈلیاں بیراں دا کجھ نئیں گیا“ کے مصداق ہمارے پیارے حکمران اب بھی تھوڑا غور و فکر کر لیں تو ویرانے میں بہار آسکتی ہے !
ستم ظریفی دیکھیے کہ جو بھی حاکم آیا اس نے وعدوں پر ہی ٹرخایا عوام کو اُلو ہی بنایا ان کے جزبات ہی سے کھیلا گیا اب بھی ایسا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ممکن نہیں کیونکہ تبدیلی کی صدائیں اٹھنے لگی ہیں ہوائیں چلنے لگی ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ عوام کے حکومت بدلنے کا مقصد در اصل اس نظام کو تبدیل کرنا ہے صرف یہی نہیں وہ چاہتے ہیں کہ صحیح معنوں میں احتساب ہو انہیں بھی شریک اقتدار کیا جائے ذرائع پیداوار میں ان کا باقاعدہ حصہ مختص کیا جائے لہذا ان کو طفل تسلیوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ۔
سیانے حکمران ضد نہیں کیا کرتے حکمت و دانائی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں پر رعب نہیں ڈالتے ان کو قریب لانے کے لئے سہولتیں دیتے ہیں ان کی جمع پونجی پر نظر نہیں رکھتے ان کے احساسات کے قدر کرتے ہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے انہیں بولنے ہی نہیں دیا جاتا احتجاج پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔یہ کیسا طرز عمل ہے ؟ سوال یہ ہے کہ یہ تادیر ممکن ہے ؟ نہیں یہ اس وقت ممکن ہوتا جب اہل اقتدار ان سے مخلص ہوتے ان کی نیندیں حرام کرنے والے مسائل کو ختم کرتے مگر انہیں تو اقتدار سے پیار ہے اس کے لئے انہوں نے کیا کیا نہ جتن کیے اس کے باوجود وہ دلوں پر راج کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ کیونکہ عوام اپنے نفع و نقصان کو خوب جان چکے ہیں لہذا وہ تبدیلی چاہتے ہیں مگر روایتی قوتیں ان کی راہ میں آن کھڑی ہوئی ہیں مگر تیر کمان سے نکل چکا ہے اب تو مہذب ممالک میں بھی ان کی خواہش کا احترام کیا جانے لگا ہے لہذا ستر برس سے سیاسی و انتظامی جمود ٹوٹنے کی گھڑی قریب آن پہنچی ہے جس کو جو خندہ پیشانی سے قبول کرے گا وہی راج کرے گا اور وہ دلوں پر ہو گا۔ ایسا راج ہی ریاست کو مضبوط و مستحکم کر سکتا ہے پھر کسی بڑی طاقت کی آشیرباد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی!