تبدیل ہوتا سیاسی منظر نامہ !…..ناصف اعوان
اپنی کمزور اقتصادی حالت کے پیش نظر بکھرا تو امریکا بہادر بھی بپھر گیا اس نے اپنے اندر جو تھوڑی بہت لچک پیدا کر رکھی تھی اسے ختم کر دیا یعنی اس کی پالیسیاں بدل گئیں جو ممالک اس کے زیر اثر تھے ان میں اس کا عمل دخل بڑھ گیا
لگتا ہے عالمی سطح پر رونما ہونے والی سیاسی و انتظامی تبدیلیوں کی بنا پر ملکی سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہونے جا رہا ہے ۔ بیس جنوری کے بعد نئی امریکی انتظامیہ اختیارات کا قلمدان سنبھال لے گی وہ چونکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے لہذا وہ ترقی پزیر و پسماندہ ممالک پر اثر انداز ہوتی ہے ۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان ملکوں کی حکومتیں تبدیل کرنے اور اجاڑنے میں اس کا اہم کردار رہا ہے ۔سرد جنگ کے زمانے میں تو وہ کُلی طور سے اپنی مرضی نہیں کر سکتی تھی اسی لئے بعض ملکوں کی حکومتوں نے آمرانہ طرز عمل اختیار کیا اپنے سیاسی حریفوں کو دبانے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ۔سویت یونین کی حمایت میں بولنے والوں پر پابندیاں لگائیں اور انہیں سزائیں دی گئیں مگر جب وہ افغان جنگ میں الجھا اور اپنی کمزور اقتصادی حالت کے پیش نظر بکھرا تو امریکا بہادر بھی بپھر گیا اس نے اپنے اندر جو تھوڑی بہت لچک پیدا کر رکھی تھی اسے ختم کر دیا یعنی اس کی پالیسیاں بدل گئیں جو ممالک اس کے زیر اثر تھے ان میں اس کا عمل دخل بڑھ گیا یعنی جو اس کے جی میں آیا اس پر عمل درآمد کرایا یہ داستان بڑی طویل ہے پھر کبھی سہی ۔یہاں ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر کے حلف اٹھانے کی بعد کی صورت حال سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ چلیں گے یا پھر موجودہ حکومت پر انحصار کریں گے وغیرہ وغیرہ ۔ ایک بات طے ہے کہ صدر ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست کہتے ہیں مگر یہ بھی ہے کہ امریکا کبھی بھی اپنے مفادات کو پس پشت نہیں ڈالتا وہ کیا ‘ کوئی بھی ملک ایسا نہیں سوچتا مگر اگر وہ عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہو تو کم از کم ان کی شرائط پر عمل کرتا ہے جو کافی سخت ہوتی ہیں اس کے باوجود وہ اپنے مفاد کو بھی سامنے رکھتا ہے ۔خیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری و غیر سرکاری عہدیداران کی طرف سے عمران خان کے لئے اچھے جزبات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کے مطابق وہ ان کے ساتھ کام کرنے میں سہولت محسوس کریں گے لہذا انہیں اقتدار میں آنا چاہیے۔ اس کے لئے وہ صاف الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ انہیں رہا کیا جائے مگر عمران خان ایسا نہیں چاہتے وہ اپنے تمام مقدمات کو عدالتوں سے ختم کرانا چاہتے ہیں !
بہرحال پی ٹی آئی کے کارکنان میں ایک خوشی کی لہر ابھر چکی ہے کہ ان کا لیڈر بہت جلد ان میں موجود ہوگا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ امریکا سمیت دوسری بڑی طاقتیں حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں مگر حکومت نے تو ایبسولوٹلی ناٹ کہہ دیا ہے۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی عزم و استقامت ہوں گے یا پھر پاپولرٹی کے لئے کہا پے اگر انہوں نے سوچ سمجھ کر کہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا کے بغیر جی لیں گے تو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے ہمیں تو بڑی خوشی ہوئی ہے مگر زمینی حقائق کچھ اور ہیں ؟
”جاوید خیالوی کا تجزیہ یہ ہے کہ ہم محکوم و مقروض لوگ ہیں اقتدار کے حصول کے لئےجب امریکا کی آشیر باد لازمی سمجھتے ہیں تو اس کی ہر خواہش کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔ اس صورت میں ایبسولوٹلی ناٹ کہنا کافی حیران کن ہے ایسا اس وقت کہا جا سکتا ہے جب عوام متحد ہوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں یا ان کی لیڈر شپ عوام کی حمایت یافتہ ہو اور جرات مند ہو بلند حوصلہ رکھتی ہو ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔حکومت اندر سے خاصی مضطرب ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائے گی وہ اپنی مدت پوری کرے گی ؟
خیالوی کے خیالات سے جزوی طور سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ جب حکومت کو عوام کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل نہیں تو وہ کسی بڑی طاقت کو کیسے آنکھیں دکھا سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر مزاکرات میں کچھ لین دین کی بات ہوتی ہے تو وہ اپنے اقتدار کا عرصہ ضرور مکمل کر سکتی ہے ویسے ہمیں نہیں لگتا کہ مزاکرات کی بیل منڈھے چڑھے گی کیونکہ پی ٹی آئی کے مطالبات میں جو بنیادی نکات شامل ہیں ان میں سر فہرست کارکنان کی رہائی ہے اور نئے انتخابات ہیں یا پھر اس کا مینڈیٹ واپس کیا جائے لہذا ابھی حتمی طور سےکچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں سیاست کی دنیا میں کسی بھی لمحے کچھ ہو سکتا ہے ؟
قارئین کرام ! نجانے کب تک یہ آشیر بادوں اور مداخلتوں کا سلسلہ جاری رہے گا حکومتیں بنتی رہیں گی اور گرتی رہیں گی ۔اس طرح تو کبھی بھی ہم خوشحال نہیں ہوں گی اور صحیح معنوں میں آزاد بھی ہوں گے جبکہ غربت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن پر قابو پانے کے لئے یکسوئی ہے نہ سرمایہ ۔ سبھی ہمیں بھکاری سمجھ رہے ہیں قرضہ دینے والوں کی شرطیں جان نکال دینے والی ہوتی ہیں اُدھر امریکا کی طرف سے پابندیاں بھی لگنے والی ہیں ۔ارباب اختیار میں خلوص ہے نہ ہمدردی ۔ان کے ٹھکانے مہزب ملکوں میں ہیں کاروبار بھی وہیں ہے ۔انہیں تو کوئی پریشانی نہیں کوئی غم نہیں اب وہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں تو اس مقصد کے لئے کہ مزے لوٹیں دولت اکٹھی کریں اور پھر اڑان بھر جائیں ۔
بہر کیف موجودہ حکومت نے پچھلے دو برسوں میں جو عوام کی "خدمت “کی ہے وہ سب کے سامنے ہے ستتر برس میں اتنا کٹھن مرحلہ نہیں آیا جتنا ان دو برسوں میں آیا .حال بھی ویسا ہی ہے کہ مہنگائی نے بڑے بڑوں کی مت ماری دی ہے غرباء ایک ایک نوالے کو ترس گئے ہیں مگر ایوانوں میں بیٹھے ”منتخب نمائندے“ عوام کے مسائل کی بات کر رہے ہیں نہ کوئی قانون سازی کر رہے ہیں اگر کوئی کر بھی رہے ہیں تو انہیں شکنجے میں کسنے کے لئے انہیں اذیت پہنچانے کے لئے اور ان سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولنے کےلئے تاکہ خزانہ بھرے اور وہ اس سے موج مستی کریں۔ یہ جو گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں یہ کس طرح جائز ہے؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو نہیں بڑھائی گئیں وہ اتنی کم ہیں کہ ان سے گزر بسر مشکل ہو چکی ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام کی کسی کو فکر نہیں مگر باتیں بہت کی جا رہی ہیں جبکہ حالات بہتر ہو ہی نہیں رہے ابتری کی طرف ہی جارہے ہیں لہذا اشتہارات اور بیانات سے لوگ مطمئن نہیں ہونے والے ۔وہ اس نظام سے تنگ آ چکے ہیں اس سے وہ اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں لہذا اس میں وہ جلد یا بدیر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اب تبدیلی کا بگل بج چکا ہے !