
بداعتمادی کا ’’ناچ‘‘……حیدر جاوید سید
سندھ حکومت نے زرعی فارمنگ کے نام پر جو ہزاروں ایکڑ اراضی پچھلے دور میں ’’مالکوں‘‘ کو دینے کی منظوری دی تھی اس منظوری کو اسمبلی سے منسوخ کراسکتی ہے
وفاق کو ’’گھوڑے‘‘ لگوانے کا شوق کسی کو چین نہیں لینے دے رہا تو ست بسم اللہ۔ جبروستم، میرٹ کا قتل، سول ملٹری بیوروکریسی کی عیاشیاں اور تام جھام کے سوا یہاں رکھا ہی کیا ہے۔ پھر بھی مشورہ یہی ہے کہ چولستان میں فارمنگ کے نام پر ہتھیائی جانے والی لاکھوں ایکڑ اراضی کے لئے نئی نہریں نکالنے کے پروگرام پر سندھیوں اور سرائیکیوں کی بات سنی جانی ازبس ضروری ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، کیا سندھ حکومت نے زرعی فارمنگ کے نام پر جو ہزاروں ایکڑ اراضی پچھلے دور میں ’’مالکوں‘‘ کو دینے کی منظوری دی تھی اس منظوری کو اسمبلی سے منسوخ کراسکتی ہے؟
ہم ایسے بدقسمت زمین زادے نصف صدی سے کہہ لکھ رہے ہیں کہ یہ ملک زبردستی کے مالکوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے رکھ رکھا ہے۔ کڑوا سچ یہی ہے۔ یہاں عام شہری کی کوئی نہیں سنتا۔ زرعی فارمنگ کے نام پر زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں۔ خشک دریائوں سے نئی نہریں نکالنے کا پروگرام کے۔ چولستان میں قبضہ گیروں نے ات اٹھارکھی ہے۔
سرائیکی اور سندھی سراپا احتجاج ہیں۔ بلوچستان میں برسرزمین جو ہورہا ہے اس سے آنکھیں بند کرکے خود کو فریب ہی دیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی ریاستی ہو یا غیرریاستی، دونوں غلط ہیں۔ عمل اور ردعمل کے فروخت ہوتے ’’فلسفے‘‘ سے ا تفاق لازم نہیں۔
اصل میں ریاست مان کر ہی نہیں دے رہی کہ دستیاب وسائل پر مقامی لوگوں کا حق ہوتا ہے ، ایک غیرمتوازن وفاق ہے۔ لُولا لنگڑا دستور، منہ زور اشرافیہ، دین فروش مولوی، مالکی کے زعم کا شکار سول ملٹری اسٹیبلنشمنٹ، آدمی جائے تو جائے کہاں؟ بلوچستان میں راکھ میں چنگاریاں نہیں بلکہ آگ کے شعلے بلند ہور ہے ہیں۔ صاف سامنے دیوار پر جو لکھا ہے وہ ’’ہم ‘‘ پڑھنا نہیں چاہتے کیونکہ ’’ہمیں‘‘ یہ زعم ہے کہ ” ہم” سب جانتے ہیں۔
خاک جانتے ہیں، اپنی غرض کے سوا سوچتے ہیں نہ ذات کے حصار سے آگے دیکھتے ہیں۔ غیرطبقاتی سماج قائم کرنے کے دعوے کے ساتھ معرض وجود میں آیا سوویت یونین کیوں بکھرا؟ طبقاتی استحصال کی وجہ سے۔
اُن بڑبولوں کی باتوں اور دعوئوں پر خاک ڈالئے جو کہتے تھے سوویت یونین توڑا ہے، امریکہ بھی توڑیں گے اور بنیا (ہندوستان) مرمت سے درست ہوگا۔ عدم مساوات اور استحصال تاریخ کی بڑی بڑی مملکتیں کھاگیا۔
دوسروں کو چھوڑیئے ذرا مسلم تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے کیسی کیسی مملکتیں تاریخ کا رزق ہوئیں یہ جو ہم سب جانتے ہیں کہ زعم کا شکار ہیں یہ کچھ نہیں جانتے۔ معاف کیجئے گا ایک ضرب المثل دستک دے رہی ہے لیکن لکھنے میں صحافتی اقدار مانع ہیں۔
بار دیگر عرض ہے، بلوچستان کے مسئلہ کو زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے اور حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ غدار غدار کھیلنے سے پرہیز کیجئے ۔ سندھ اور سرائیکی وسیب زرعی فارمنگ کے لئے ہتھیائی جانے والی زمینوں اور نئی نہروں کے معاملے پر ناراض ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ پارا چنار پانچ سوا پانچ ماہ سے محاصرے میں ہے۔
کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے (خدا کرے کہ یہ غلط ہو) کہ ریاست یا یوں کہہ لیجئے وفاق پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا میں کسی انہونی کے ہونے کا منتظر ہے تاکہ ہنگامی حالات کے نفاذ کا ہتھیار چلاکر گورنر راج کی طرف جایا جاسکے۔
سادہ سا سوال ہے، خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی اور موجودہ بندوبستی علاقوں میں خیبر سے لے کر شمالی و جنوبی وزیرستان تک وفاقی سکیورٹی فورسز کارروائیوں میں مصروف ہیں روزانہ کی بنیاد پر کارروائیوں کی تفصیلات بھی سامنے آتی ہیں۔
وفاقی سکیورٹی فورسز ضلع کرم میں اصلاح احوال کے لئے ذمہ داریاں کیوں ادا نہیں کرتی؟
یہ کہنا کہ صوبائی حکومت وفاقی سکیورٹی فورسز کو مدد کے لئے طلب کرے۔ درست تب ہوتا اگر خیبر سے وزیرستان تک کارروائیوں میں مصروف فورسز کو بذریعہ درخواست طلب کیا گیا ہوتا۔ ان علاقوں میں آپریشن جاری رہ سکتا ہے تو ضلع کرم میں کیوں شروع نہیں کیا جاسکتا؟
یہ سطور لکھتے ہوئے ایک رپورٹ کسی مہربان نے بھجوائی۔ تحریر کو درمیان میں چھوڑ کر اس رپورٹ کا مطالعہ کیا رپورٹ بتایا گیا ہے کہ 6 کالعدم تنظیموں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھنے اور اس کا دائرہ پھیلانے کے معاملے پر ایک اتحاد قائم کیا ہے۔ اس اتحاد میں القاعدہ اور داعش کا ایک دھڑا بھی شامل ہیں۔
سابق فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور اہداف کے حصول کے لئے الگ الگ تنظیم کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مثلاً کرم اور شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت جنوبی اضلاع میں کارروائیاں کالعدم ٹی ٹی پی کا حافظ گل بہادر گروپ کرے گا دوسرے تمام گروپ اس سے تعاون کریں گے۔
یہ تعاون محض لاجسٹک سپورٹ تک محدود نہیں ہوگا ۔ (ایک اطلاع یہ ہے کہ لشکر جھنگوی اور تحریک المجاہدین کو اتحاد میں شامل کرنے کا فیصلہ اگلے اجلاس میں ہوگا) ۔ ہماری دانست میں اس طرح کے سنگین مسائل پوری توجہ کے مستحق ہیں ان سے صرف نظر کرکے نئے مسائل کاشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
جو لوگ اس نیم جاں وفاق کی بنیادیں ہلانے کا سامان کررہے ہیں انہیں بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر ’’کچھ ہوا‘‘ تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا؟
ہمیں بتایا جانا چاہیے کہ چولستان میں فارمنگ کے نام پر ہتھیائی گئی زمین جن 6 افراد کو الاٹ کی گئی ہے ان افراد اور ان کے خاندانوں کا زرعی فارمنگ کے حوالے سے کیا تجربہ ہے؟
معاف کیجئے گا ’’چوری کے کپڑے ڈانگاں دے گز‘‘ والا معاملہ نہ کریں کیونکہ بے اطمینانی اور وفاق کے لئے عدم اعتماد کا دوردورہ ہے۔
پیپلزپارٹی کو بھی ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے کھیل کو ترک کرکے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس کی ابتدا سندھ میں زرعی فارمنگ کے لئے دی گئی ہزاروں ایکڑ اراضی کی واپسی کے اقدام سے دیکھائی دینی چاہیے۔
اگر پیپلزپارٹی یہ نہیں کرتی تو بات صاف ہوجائے گی کہ وہ بھی اب اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایا میں حصہ وصول کرنے کی سیاست کا کاروبار کررہی ہے۔
یہاں لگے ہاتھوں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ پی پی پی نے جس شخص کو پنجاب کا گورنر بنوایا ہے اسے گڑھی خدا بخش کی جامع مسجد کا پیش نماز لگالے تو زیادہ بہتر ہوگا خیر اس قصے کو رہنے دیجئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
کیا پیپلزپارٹی کو کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی کہ بلوچوں کے قاتل کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنوادیا؟ اس شخص کے لئے بعض جیالے دوستوں کے دلائل اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ہنسی کی بجائے رونا آتا ہے۔
ہم بات کررہے تھے کہ وفاق کے لئے اس کی اکائیوں میں عدم اعتماد بڑھ رہا ہے ان حالات میں وسطی پنجاب کے اہل دانش اور سیاسی کارکنوں کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا وہ اگر بالادست اشرافیہ کے ساجھے دار نہیں تو پھر دوسری اقوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔
ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں ’’وہ‘‘ اگر چاہیں تو ہیڈ تریموں کو خوش اسلوبی کے ساتھ چولستان لے جاسکتے ہیں‘‘۔ ہم نے عرض کیا ’’اُن‘‘ کے ماضی کے سارے تجربے بھیانک ثابت ہوئے اور تخلیقیں خالق کے گلے پڑیں خطرہ یہ ہے کہ یہ زرعی فارمنگ کا تجربہ بھی گلے پڑے گا صرف یہی نہیں بلکہ اس گلے پڑنے سے نقصان وفاق کا ہوگا۔
بہرطور ہم عرض ہی کرسکتے ہیں ان لوگوں کی خدمت میں جن کا خیال ہے کہ وہ سب جانتے ہیں اور ان کی لیاقتوں نے پاکستان کو سنبھال رکھا ہے۔
معاف کیجئے گا آپ کے تجربوں کے شوق نے پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ بار دیگر عرض ہے طبقاتی بالادستی، استحصال، انصاف کو دھندہ بنالینے، وسائل پر چند طبقات کی اجارہ داری اور ریاست کو بھتہ مافیا بنادینے کے شوقوں نے ماضی میں بڑی بڑی سورما ریاستوں کو چاروں شانے چِت کردیا ہم تو کچھ بھی نہیں ان ریاستوں کے مقابلے میں۔
اس لئے بہتر ہوگا کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے بصورت دیگر داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔