
دھند کی لپیٹ میں ہے منزل کا راستہ !….ناصف اعوان
پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت تسلیم کرے گی نہ کوئی بات بنے گی اس صورت میں دونوں دھڑوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر لچک پیدا کریں حزب اختلاف بھی اپنے مطالبات پر نظر ثانی کرے
چند روز پہلے حکومت اور حزب اختلاف کے مابین وقفے وقفے سے مذاکرات ہوئے فریقین نے اچھی اچھی باتیں کیں لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹیں بھی بکھیریں مزاکرات کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی ڈالی گئی مگر مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکے ؟
ایسا لگتا ہے کہ نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ۔ پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت تسلیم کرے گی نہ کوئی بات بنے گی اس صورت میں دونوں دھڑوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر لچک پیدا کریں حزب اختلاف بھی اپنے مطالبات پر نظر ثانی کرے اور حزب اقتدار بھی غور کرے تاکہ ملک میں معاشی سطح پر پائی جانے والی بے چینی میں کمی آسکے مگر اس حوالے سے حکومت جس کا کام ملکی معیشت کو سنبھالا دے کر عوام کو پیچیدہ مسائل سے نجات دلانا ہوتا ہے اپنی انا قربان کرنے کو تیار نہیں جبکہ اسے عوام کی حمایت بھی زیادہ حاصل نہیں ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب وہ نسبتاً مقبولیت میں بہت پیچھے ہے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ عوامی مسائل و مشکلات پر بھر پور طور سےتوجہ مرکوز کرے اور انہیں حل کرنے کی سعی کرے مگر اس طرح تو وہ تادیر حکمرانی کے مزے نہیں لوٹ سکتی۔ اب تو معروضی حالات بھی تبدیل ہو چکے ہیں جو پی ٹی آئی کے حق میں نظر آتے ہیں اور ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آتی جا رہی ہے حیرانی مگر یہ ہے کہ حکومت اب بھی طویل منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔
ماضی کی حکومتوں اور سیاست کو دیکھیں تو آخری لمحات تک ہر جانے والی حکومت ایسا ہی تاثر دیتی ہے جبکہ اسے اصل صورت حال کا بخوبی علم ہوتا ہے مگر وہ حوصلہ بلند رکھتی ہے ۔خیر آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ کون کہاں تک چلتا ہے اور کون تھک کر سستانے لگتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ حکومت کیسے اپنا عرصہ اقتدار پورا کر سکتی ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جو اندرون و بیرون یکساں مقبول ہے کو یکسر نظر انداز کر رہی ہو اور پھر اسے امریکا بہادر بھی اسے تھپکی دے رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اہم ترین ساتھی برملا کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو رہا کرو وہ خود بھی یہ بات کہہ چکے ہیں ۔ہم چونکہ آشیربادی مزاج رکھتے ہیں واشنگٹن کی مرضی کو حتی المقدور پیش نظر رکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں اب بھی حکومتیں اس کی منشا سے ہی آتی جاتی ہیں ۔اس نے آمروں کی پشت کو بھی سہلایا اور سیاست دانوں کو بدنام بھی کیا گیا ۔اسی امریکا نے اپنے نظام کو تقویت پہنچانے کےلئے اپنے مخالف نظام کو غلط اور غیر موزوں کہا اس میں کیڑے نکالے گئے جبکہ وہ نظام حیات لوگوں کو بنیادی حقوق دے رہا تھا ۔ تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں مہیا کررہا تھا آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کر رہا تھا اور انسانی اقدار کو مقدم سمجھتا تھا۔ بہرحال اس امریکا نے ہمارے ہاں ہی نہیں جہاں جہاں اس کا اثر و نفوز تھا اور ہے وہاں وہاں اس نے معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا بنیادی صنعتوں کو نہیں قائم ہونے دیا۔ خود کفالت کی منزل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اپنے قدرتی وسائل سے مستفید نہیں ہونے دیا گیا اسی لئے ہی کل تک عوام اس سے سخت نفرت کرتے تھے مگر اس وقت جب عمران خان جیل میں ہیں تو امریکا کو محبت بھری نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ خان کو آزاد دیکھنے کا خواہاں ہے جبکہ شعوری دور میں اسے مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر ہم چونکہ اپنی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں کر سکے اس کی ہڈی پسلی ایک کرتے رہے ہیں اب صورت حال یہ ہے کہ سرکار کو امور مملکت چلانے کے لئے اس کے ذیلی مالیاتی اداروں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے لہذا حکمرانوں کو اس کی ہر ”نصیحت“ پر جلد یا بدیر عمل درآمد کرنا پڑتا ہے ۔بصورت دیگر گاڑی معیشت کی پٹری سے اتر سکتی ہے ہاں اسے پٹری سے نہ اترنے دینے کے لئے جو خزانہ خالی کیا گیا ہے جس جس نے بھی کیا ہے اس کا حساب کتاب ہونا چاہیے ۔اخر کب تک ایسے جیا جا سکتا ہے اور وہ جینا ہی کیا کہ جس میں دوسروں کے احکامات ماننا پڑیں ۔اپنی کوئی سوچ اور کوئی خواہش ہی شامل نہ ہو۔
یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے ذہنوں میں گویا معلومات اور ادراک و فہم کا سیلاب آیا ہوا ہے وہ جان چکے ہیں کہ وہ غریب کیوں ہیں کس نے انہیں بیوقوف بنایا ان کی دولت کو سوئٹزر لینڈ اور دوسرے بنکوں میں لے جا کر کس کس نے محفوظ بنایا اب جب وہ جاگ گئے ہیں تو انہیں سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس مقصد کے لئے بہت سے اہل دانش وفکر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو جہاں کہیں بھی ہیں عمران خان کی خوب ٹھکائی کر رہے ہیں صبح شام اپنی گفتگوؤں اور تحریروں میں انہیں عوام کی نگاہوں میں گرانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں مگر لوگ ہیں کہ ان کی درفنطنیوں پر کان نہیں دھر رہے بلکہ اس کا الٹا اثر لے رہے ہیں یہ جو انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے اس سے وہ انہیں اپنا ”مرشد“ ماننے لگے ہیں۔بات پہنچی تیری جوانی تک جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے بڑے بڑے فلسفی بھی اسے قابو میں نہیں کر سکتے پھر جب آگہی کی لہر ابھر چکی ہو تو کوئی بھی ” مہم جوئی “ ناکام و نامراد رہتی ہے لہذا عرض ہے کہ کسی کو کسی کے دل سے نکالنے کے لئے اس کا مزاج اس کی احتیاجات و ضروریات کو مد نظر رکھا جاتا ہے نرم رویہ اور دلیل کو اختیاد کیا جاتا ہے۔
بہر کیف جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں مزاکرات تعطل کا شکار ہیں اور دوبارہ شروع بھی ہو جاتے ہیں تو کسی نتیجے پر پہنچتے نظر نہیں آرہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ خان رہا نہیں ہو گا اگر حکومت امریکی دباؤ برداشت نہ کرنے کا کوئی پروگرام بنا چکی ہے اور اسے کہیں سے مالی تعاون کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے تو پھر معاملہ مختلف بھی ہو سکتا ہے وگرنہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کو سنا جا چکا ہے خان کو بہت جلد کھلی فضا میں آ کر سانس لینا ہے کیونکہ منظر کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہتا‘ تبدیل ہو جاتا ہے ۔
حرف آخر یہ کہ اب عوام اپنے لئے وہ راستہ اختیار کرنے جا رہے ہیں جس پر چل کر ان کے ارمانوں کی تکمیل ہو سکے اگرچہ وہ راستہ دھند کی لپیٹ میں ہے مگر کب تک‘ بالآخر یہ دھند چھٹ جائے گی !