
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے اعلیٰ سفارت کار نے بدھ کو سلامتی کونسل میں بحث کے دوران کشمیر اور فلسطین جیسی جگہوں پر "غیر ملکی قبضے” میں رہنے والے بچوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ انہیں بڑی تعداد میں تشدد اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ کھلی بحث بچوں اور مسلح تنازعات کے بارے میں 2024 کی سالانہ رپورٹ کی بنیاد پر منعقد کی گئی جس کا آغاز اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کیا تھا۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر میں تنازعات والے علاقوں میں بچوں کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافے کو نمایاں کیا گیا۔
رپورٹ میں تنازعات کے ماحول میں بچوں کے تحفظ کے لیے فوری بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا اور اس ضرورت پر زور دیا گیا کہ تمام فریق اقوامِ متحدہ کے ساتھ زیادہ مضبوطی سے شامل ہوں تاکہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات نافذ کیے جا سکیں۔
سفیر اکرم نے اس بات پر تنقید کی کہ فلسطین اور ہندوستان کے غیر قانونی زیرِ قبضہ کشمیر کے بچوں کی حالتِ زار بیان کرنے کے حوالے سے اس میں "مسلسل اور نہایت واضح ناکامی اور منتخب غفلت” برتی گئی۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، "رپورٹ میں تفصیل سے بچوں کے خلاف 32,990 تصدیق شدہ سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ غیر ملکی قبضے مثلاً بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں رہنے والے بچے خاص طور پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔”
اس میں مزید کہا گیا، "سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اگرچہ غزہ میں 14000 سے زائد بچے ہلاک ہو چکے ہیں لیکن کشمیری بچوں کی نسلوں نے تشدد، جبر اور خوف کے ماحول میں پرورش پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2019 میں بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے بعد کشمیری بچوں کے لیے انسانی بحران مزید خراب ہو گیا ہے۔” یہ بات نئی دہلی کے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کی گئی جس کی بنیاد پر اس کی زیرِ حکمرانی واحد مسلم اکثریتی ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کر کے اسے باقی ہندوستانی یونین کے ساتھ ضم کر دیا گیا۔
پاکستانی سفارت کار نے اقوامِ متحدہ سے 13,000 کشمیری نوجوانوں کا پتا چلانے اور ان کی حالت کے بارے میں تحقیقات کرنے اور اطلاع دینے کو کہا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان نوجوانوں کے بارے میں اطلاع ملی کہ اگست 2019 کے بعد بھارتی افواج نے بڑے پیمانے پر انہیں "اٹھا کر” حراست میں لے لیا۔
اقوامِ متحدہ نے 2016 میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کی نگرانی اور رپورٹ کرنے کے لیے ہندوستان کے زیرِ قبضہ کشمیر تک رسائی کی درخواست کی تھی لیکن نئی دہلی نے اسے مسترد کر دیا تھا۔