
بھارتی کسان مطالبات منوانے کے لیے پرعزم
کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔
(نئی دہلی نمائندہ وائس آف جرمنی): بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر واقع کھنوری اور شمبھو بارڈر پر تقریباً ایک سال سے چلنے والے کسانوں کے دھرنے اور 56 روز سے کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلیوال کے مرن برت (تادمِ مرگ بھوک ہڑتال) کا معاملہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔پنجاب اور ہریانہ کے کسان گزشتہ سال 13 فروری سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کی ایک تنظیم ’سمیوکت کسان مورچہ‘ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے سربراہ جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔
سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس نے ’آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ (ایمس) کے ڈاکٹرز کی بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔مرکزی حکومت نے کسانوں اور حکومت کے درمیان جاری تعطل کو دُور کرنے کے لیے کسان نمائندوں کو مذاکرات کے لیے 18 فروری کو مدعو کیا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ سال 18 فروری کو حکومت اور کسانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت ناکام ہو گئی تھی جس کے بعد سے مسلسل تعطل برقرار ہے۔
حکومت کے اس اعلان کا یہ فوری نتیجہ برآمد ہوا کہ ڈلیوال نے ہفتے اور اتوار کی رات سے طبی امداد لینا شروع کر دی تاہم وہ اب بھی کوئی غذا نہیں لے رہے ہیں۔ صرف پانی پر ان کا گزارا ہے۔ان کی حمایت میں 15 جنوری سے 121 کسان بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے تھے۔ ڈلیوال کے میڈیکل ایڈ لینے کے بعد انھو ںنے اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔بہت سے کسان مذاکرات کے حکومت کے اعلان کو شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست پنجاب کے وزیرِ زراعت گورمیت سنگھ نے اتوارکو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈلیوال کی صحت انتہائی خراب ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو اسے ایک یا دو روز کے اندر ہی مذاکرات کرنے چاہئیں۔کسانوں کی ایک تنظیم ’جے کسان آندولن‘ کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رمضان چودھری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا سیاسی حربہ ہے۔ بقول ان کے حکومت نے دہلی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں منفی ووٹ پڑنے کے ڈر سے اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت دہلی اسمبلی کے لیے انتخابی مہم چل رہی ہے۔ بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ پانچ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور آٹھ فروری کو ووٹوں کی گنتی ہو گی۔حکومت کی دلیل ہے کہ چوں کہ نو فروری تک ضابطہ اخلاق نافذ ہے اس لیے وہ کوئی اعلان نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ 14 فروری کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔
حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ اس نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زرعی اصلاحات کیں اور ان قوانین کو پارلیمان سے منظور کرایا تھا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کے مقصد سے متعدد اقدامات کیے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے پروگراموں کا بھی اعلان کیا ہے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟
فصلوں پر حکومت کی جانب سے طے کی جانے والی قیمت ’منیمم سپورٹ پرائس‘ (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی دی جائے۔
کسانوں کے قرضہ جات معاف کیے جائیں۔ کسانوں اور کسان مزدوروں کو پینشن دی جائے اور بجلی کی شرحوں میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے۔
سال 2021 میں اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں احتجاج کے دوران کسانوں کے خلاف جو کیسیز درج کیے گئے تھے، وہ واپس لیے جائیں اور وہاں ہونے والے تشدد کے متاثرین کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
زمینوں کو تحویل میں لینے کے قانون ’لینڈ ایکویزیشن ایکٹ 2013‘ کو بحال کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے تحویل میں لی جانے والی زمینوں کے معاوضے میں 64 فیصد کا اضافہ کیا جائے جو کہ بازار شرح سے چار گنا زیادہ ہے۔
سال 2020-21 کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ احتجاج کے دوران 700 سے زائد کسان ہلاک ہوئے تھے۔
بے زمین کسان مزدوروں کے بچوں کو ملازمت اور رہائشی فوائد دیے جائیں اور فوری آبادی والے علاقوں میں مناسب آبادکاری کی جائے۔