صحت

سویڈن لڑکیوں کے کنوار پن کے ٹیسٹوں پر پابندی کا خواہش مند

اس اقدام کا مقصد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل اور دیگر جرائم کے خطرے کے خلاف بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔

عصمت جبیں ، اے ایف پی کے ساتھ

سویڈن کی حکومت نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے کنوار پن کے ٹیسٹ کرانے کو قانونی طور پر جرم قرار دے دینے کی خواہش مند ہے۔ اس اقدام کا مقصد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل اور دیگر جرائم کے خطرے کے خلاف بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے طبی آپریشنوں کو بھی قابل سزا جرم قرار دے دیا جائے، جو پھٹ جانے والی ہائمن یا پردہ بکارت کے بحالی کے لیے کیے یا کرائے جاتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل اور دیگر جرائم کے خطرے کے خلاف بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔

’ایسے ٹیسٹوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں‘

کسی خاتون کا ایسا کوئی ٹیسٹ اس لیے کیا جاتا ہے کہ بظاہر یہ طے کیا جا سکے کہ آیا وہ کنواری ہے۔ اس کے لیے اس کے تولیدی نظام میں اس باریک سے جھلی نما ٹشو کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، جسے hymen یا پردہ بکارت کہتے ہیں۔

جوگنگ کے بعد ایک پارک میں لکڑی کے فرش پر لیٹی ہوئی تین نوجوان سہیلیاں جو کسی بات پر مسکرا رہی ہیں
سویڈش حکومت کے مطابق وہ یہ نئی قانون سازی خواتین کو خلاف غیرت کے نام پر جرائم کے ارتکاب کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہےتصویر: IMAGO/imagebroker

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس عمل کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور یہ جنسی حوالے سے خواتین کے ذاتی وقار کی خلاف ورزی ہے۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں باقاعدہ یہ مطالبہ کیا تھا کہ ‘کنوار پن کے ٹیسٹ‘ ممنوع قرار دیے جائیں۔

کنوار پن کے ایسے ٹیسٹ مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں، جن میں پردہ بکارت کے سائز کی پیمائش لے کر اس کی لچک کا اندازہ لگانا بھی شامل ہیں۔

زیر غور قانون سازی کی اہم بات کیا؟

سویڈش محکمے سوشل سٹیرلسن نے اے ایف پی کو بتایا، ”جو تجاویز تیار کی جا رہی ہیں، ان کا مقصد ایسے اعمال کو قابل سزا بنانا اور ان کے مرتکب افراد کو سزائیں سنانا ہے۔ یعنی ایسا کرنا، جیسا اب تک نہیں ہوتا۔‘‘

منگولیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لڑکیوں کے کنوار پن کے زبردستی ٹیسٹ کرانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے، اس تصویر میں منگولیا کی تین نوجوان خواتین ایک کلینک میں بیٹھی ہوئی ہیں
منگولیا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لڑکیوں کے کنوار پن کے زبردستی ٹیسٹ کرانا عام سی بات سمجھی جاتی ہےتصویر: 

سویڈن میں رائج موجودہ ضابطوں کے مطابق ایسے پیشہ ور افراد جو خواتین کے کنوار پن کے نام نہاد ٹیسٹ کرتے ہیں، ان کے خلاف صرف پیشہ وارانہ نوعیت کی تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ایسے طبی معائنوں سے متعلق حکومت کے ایما پر تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن میں کنوار پن کے ٹیسٹ کرانا، اس سے متعلق سرٹیفیکیٹ جاری کیے جانا یا پردہ بکارت کی بحالی کے لیے سرجری جیسی کارروائیاں عام نہیں ہیں۔

تاہم اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بعض اوقات لڑکیوں کو ایسے طبی معائنوں کے لیے بیرون ملک بھی لے جایا جاتا ہے تا کہ ان کے کنواری ہونے یا نہ ہونے کا نام نہاد تعین کر کے ان خواتین کے خاندان ان کے ساتھ اپنے سلوک کا تعین کر سکیں۔

سویڈن کے شہر مالمو میں ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ ایک بورڈ واک پر عام شہریوں کا ہجوم
سویڈن کے شہر مالمو میں ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ ایک بورڈ واک پر عام شہریوں کا ہجومتصویر: Johan Nilsson/TT/picture alliance

خواتین کی صحت اور حقوق دونوں کے لیے ‘بڑا خطرہ‘

اقوام متحدہ کے یو این ویمن نامی پلیٹ فارم نے کنوار پن کے ایسے ٹیسٹوں کو ایک ‘نقصان دہ عمل‘ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رکھا ہے، جو لڑکیوں اور خواتین کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے جنسی اورتولیدی حقوق کے لیے بھی ‘بڑا خطرہ‘ ہے۔

سویڈش وزیر مساوات نینا لارسن کہتی ہیں،”عزت کے تصور سے جڑے جبر کی سب سے خاص بات اس کی اجتماعی نوعیت ہے۔ یعنی ایک عورت کی جنسیت کو اس کے پورے خاندان سے متعلق معاملہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘

نینا لارسن نے ابھی حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا، ” یہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے ذاتی وقار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘‘

سویڈن کی وزارت مساوات اور وزارت انصاف کی مشترکہ تجویز ہے کہ اس حوالے سے ترمیم کے بعد نیا قانون اس سال یکم دسمبر سے نافذ ہو جانا چاہیے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button