کالمزسید عاطف ندیم

اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں

پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہیں

تاریخ میں ہمیشہ سے معاشرے اکثریت اور اقلیت میں تقسیم رہے ہیں۔ اکثریتی طبقہ اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اقلیتوں پر اپنا دباؤ رکھتا تھا اور اُنہیں مکمل آزادی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ صورتحال ابھی بھی بہت مختلف نہیں۔
اقلیتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں، جن میں خاص طور سے مذہبی، لسانی، نسلی اور مہاجر قابلِ ذکر ہیں۔ لوگ روزی اور تحفظ کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے لیے کسی نئے مُلک میں جا کر آباد ہونا مُشکلات کا باعث رہا ہے۔ کیونکہ آب و ہوا، ثقافتی اِختلافات اور زبان کے نہ جاننے سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس لیے اقلیتوں کو نئے معاشرے میں آباد ہونے اور اس کے رسم و رواج کو سمجھنے میں وقت لگتا تھا۔
اپنے تحفظ کے لیے یہ علیحدہ آبادیوں میں رہتے تھے اور روزی کے لیے کسی ایک خاص پیشے میں مہارت حاصل کر لیتے تھے تا کہ اُن کی ضرورت معاشرے میں محسوس ہوتی رہے، لیکن اس کے باوجود اکثریت اور اقلیت کے درمیان دُوری رہتی تھی۔
رومی سلطنت میں مسیحی مذہب کی ابتداء ہوئی کیونکہ یہ اقلیت میں ہوتے تھے اس لیے یہ اپنے عقیدے کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ خُفیہ مقامات پر لائن میں عبادت کرتے تھے۔ تبلیغ بھی خاموشی سے کرتے تھے لیکن جب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو یہ رومی حکومت کی نظروں میں آ گئے۔ حکومت کسی نئے فرقے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیے اُس کے عہدیداروں نے مسیحیوں سے بحث کے بعد چاہا کہ وہ اپنے مذہب سے دست بردار ہو جائیں۔ انکار کی صورت میں اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔ کلوزیم میں انہیں جنگلی جانوروں سے مروایا گیا۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں مسیحی مذہب میں دو تصور اُبھرے۔ ایک ولی کا تصور اور دوسرا شہید کا۔ کہ ان لوگوں نے اپنے مذہب کی خاطر جانیں دیں۔
131 عیسوی میں جب بازنطینی سلطنت کے بانی قسطنطین نے مسیحی مذہب قبول کیا تو مسیحی مذہب کو ریاست کی حمایت حاصل ہو گئی اور انہوں نے پیگن اقلیت کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو رومیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔
جب یورپ میں پروٹسٹنٹ ازم آیا تو جن مُلکوں میں کیتھولِک اقلیت میں تھے وہاں ان کے ساتھ پروٹسٹنٹ عقیدے والوں نے بے انتہا مظالم کیے۔ جیسے فرانس میں Saint Bartholomew میں پروٹسٹنٹ اقلیت کا 1572 میں قتلِ عام کیا گیا۔ انگلستان کے کروم ویل نے آئرلینڈ کے کیتھولک مذہب والوں کا قتلِ عام کر کے اُن کی آزادی کو ختم کیا جو 1649 سے لے کر 1653 تک جاری رہا۔
اقلیتوں کا سب سے بڑا المیہ اُس وقت شروع ہوا جب افریقہ سے غلاموں کو امریکی کریبیئن جزائر اور انگلینڈ میں لایا گیا۔سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں نے انہیں ایک علیحدہ مخلوق سمجھا اور ان کو انتہائی نچلے طبقے میں شامل کر کے ان کے ساتھ تعصب اور نفرت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ امریکہ میں جنوب کی ریاستوں میں یہ کاٹن اور گنے کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ اِن میں اور سفید فام لوگوں کے درمیان فرق موجود تھا۔ کریبیئن جزائر میں یہ شَکر کی پیداوار میں مدد کرتے تھے۔اپنی محںت کے باوجود انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔
جب کریبیئن جزائر سے افریقیوں کی ایک تعداد انگلستان کے شہروں خاص طور سے لیور پول، برسٹل اور نوٹنگن میں آ کر آباد ہوئی تو انگریزوں کی جانب سے افریقیوں کے خلاف سخت مظاہرے ہوئے۔ اس کے نتیجے میں سفید فاموں اور افریقیوں کے درمیان تصادُم ہوا۔ اقلیتیں ایک حد تک مظالم کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن جب انتہا ہو جائے تو وہ بھی اپنے تحفظ کے لیے لڑتی ہیں۔ نسلی فسادات کی وجہ سے انگلستان کے صنعتی شہروں میں اَمن و اَمان نہیں رہا۔
لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں سکھ کمیونٹی کے کچھ لوگ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں آباد ہوئے۔ یہاں ان کے ساتھ سخت تعصب کا برتاؤ کیا گیا۔ بینکوں نے اِنہیں قرض دینے سے انکار کر دیا۔ سفید فام عورتوں نے ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے انِہوں نے میکسکن خواتین سے شادیاں کیں۔ ان کی اولاد میں انڈین، میکسکن اور امریکن شناختیں آپس میں مِل گئیں۔ نسلی تعصب کے باوجود انہوں نے محنت و مشقت کر کے اپنا مقام پیدا کیا۔ لیکن نسلی تعصب نے ان کی ذہنی حالت کو بدل ڈالا۔
1913 میں اُنہوں نے غدر پارٹی بنائی تا کہ ہندوستان کو برطانیہ سے آزاد کرایا جائے۔ یہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اخبار نکالتے تھے۔ سان فرانسسکو میں انہوں نے ایک ہال بھی تعمیر کرایا تھا۔ ان میں سے بعض پرجوش نوجوانوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔ تا کہ وہاں آزادی کی تحریک کو چلایا جائے۔ لیکن برطانوی مخبروں نے ان کے بارے میں ساری اطلاعات برطانوی حکومت کو دے دیں۔ لہٰذا جیسے ہی ہندوستان پہنچے اِنہیں گرفتار کر کے جیلوں میں قید کر دیا گیا اور اُن کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکی۔پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ برائے 2022 میں کہا گیا ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات لمحہ فکریہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق اگرچہ توہینِ مذہب کے الزامات سے متعلق پولیس رپورٹس میں کمی آئی ہے تاہم ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق احمدی برادری خاص طور پر حملوں کی زد میں رہی اور خصوصاً پنجاب میں اُن کی کئی عبادت گاہوں اور 90سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ اگر ریاست کو سیاست، قانون اور نظم و نسق کے حوالے سے ایک عوام دوست حکمتِ عملی کی جانب بڑھنا ہے تو اسے ان مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں ملک بھر میں توہینِ مذہب کے 35 مقدمات درج کیے گئے جن میں 171 افراد کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت بڑھنے کی بڑی وجہ احمدی کمیونٹی کے خلاف طویل عرصے سے کیا جانے والے پروپیگنڈا ہے۔احمدی کمیونٹی کے خلاف نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اُنہیں اپنا مؤقف پیش کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان میں دیگر مذاہب کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "سینٹر فار سوشل جسٹس” کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مظالم کی وجہ تاریخی اور معاشرتی محرکات ہیں جب کہ حکومتوں اور اداروں کی پالیسیوں کا بھی اس میں کردار ہے۔معاشرے میں کچھ ایسے ادارے موجود ہیں جو عدم برداشت کا پرچار کرتے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیا سمجھتی ہیں کہ یوں کہنا کے واقعات بڑھ رہے ہیں سے گمان ہوتا ہے کہ پہلے شاید واقعات کم ہوتے تھے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ "یہ واقعات کبھی کم ہوئے ہی نہیں۔”
ریاست نے اپنی پالیسی کے تحت ملک میں مدرسوں کا ایک جال بچھایا جب کہ شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کے مسئلے پر پوری طرح توجہ نہیں دی گئی۔ اقلیتوں کے ساتھ قوانین اور آئینِ پاکستان میں امتیازی سلوک رکھا گیا ہے۔ آئین کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم شخص ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا۔موجودہ دور میں زیادہ ذرائع ابلاغ ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ واقعات بڑھ رہے ہیں اور سندھ جیسے علاقے سے ایسے کسی واقعہ کا سامنے آنا تشویش کی بات ہے جہاں مذہبی رواداری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔کوئی بھی وکیل حتیٰ کے احمدی وکیل بھی کیس کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ وہ وہ بھی ڈرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کی صورت میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے۔انسانی حقوق اور شہری حقوق کی خلاف ورزی کسی بھی بنیاد پر کرنا غیرقانونی ہے۔ تشدد کو روکنا چاہیے اور قوانین کے علاوہ اِس کی مذمت کرنی چاہیے۔ ایسے واقعات کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داریاں ادا کرے اور احمدی برادری کے خلاف جو یک طرفہ، بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اُس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے چند سال پہلے جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اُس میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نفرت انگیز تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں احمدیوں کے بارے میں ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جن میں اُنہیں نکاح سے قبل حلف نامہ جمع کرانے کو کہا گیا تھا۔ ریاستی معاملات میں مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
موجودہ دور میں سیاسی تبدیلیوں اور جمہوری اداروں کے قائم ہونے کے باوجود اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ اُن کا معاشرہ میلٹنگ پوٹ ہے، جن میں اکثریت اور اقلیت سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے مہاجرین جو امریکہ میں آ کر آباد ہوئے ہیں اُن کے ساتھ تعصب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افریقی باشندے تمام سیاسی نشیب و فراز کے بعد آج بھی عدم مساوات کا شکار ہیں۔
موجودہ دور میں جب ایشیا اور افریقہ کے باشندے یورپی مُلکوں میں جا کر آباد ہوئے تو ان کے اور مقامی باشندوں کے درمیان ابھی بھی کہیں کہیں خلا موجود ہے۔ نسلی تعصب نے یورپی مُلکوں میں مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعتوں کو مقبول کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں اور اکثریت آبادی میں مِلاپ کے امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔
اقلیتوں کا یہ المیہ بھارت اور پاکستان کے معاشروں میں موجود ہے۔ یہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ فسادات کی صورت میں قتلِ عام بھی ہوتا ہے۔ اگر اقلیتوں کو قوم کا حصہ نہ بنایا جائے تو اس صورت میں قوم کی تشکیل اَدھوری رہتی ہے۔ اقلیتوں کو پورے حقوق دے کر اُن کی ذہانت اور لیاقت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ عام لوگ بنیادی طور پر تحفظ اور اَمن چاہتے ہیں، اور تشدد کسی بھی صورت میں معاشرے کو مستحکم نہیں کرتا۔

نوٹ: وائس آف جرمنی اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ادارے کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button