پاکستاناہم خبریں

پاکستان سے بیرون ملک بھیک مانگنے کے لیے جانے والوں کو روکنے کی قانون سازی کے اقدام کی تجویز

بھکاریوں کے نام ای سی ایل میں شامل کیے ہیں اور معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے

(سیدعاطف ندیم-پاکستان): پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی جانب سےبیرون ملک پاکستانی بھکاری جانے کی روک تھام کےلیے انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 میں ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جس کو مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا گیا ہے۔

یہ ترمیمی بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب بیرون ممالک خاص طور پر سعودی عرب میں پاکستان سے آنے والے بھکاریوں کے معاملے کو پاکستان کی حکومت کے سامنے اٹھایا جا رہا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آنے والے سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ نے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔

پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان کے مطابق 20 نومبر 2024 کو ہونے والی ملاقات کے دوران پاکستان سے بھکاریوں کو سعودی عرب بھجوانے والی مافیا کی سرکوبی پر بات چیت کی گئی تھی ۔

اس موقعے پر وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے سعودی عرب کے نائب وزیرِ داخلہ کو بتایا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے 4300 بھکاریوں کے نام ای سی ایل میں شامل کیے ہیں اور معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھکاری مافیا کے خلاف ملک بھر میں مؤثر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

سعودی نائب وزیر داخلہ کے دورۂ پاکستان سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوور سیز کے اجلاس میں متعلقہ سیکریٹری نے بتایا تھا کہ بیرون ممالک میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں 90 فی صد پاکستانی ہوتے ہیں۔بھکاری اکثر عمرے کے ویزے پر جاتے ہیں اور سعودی عرب جا کر زائرین سے بھیک مانگتے ہیں ۔

سیکریٹری اوور سیز نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا تھا کہ سعودی کے ساتھ ساتھ عراق کے سفیر بھی ایسی شکایات کرچکے ہیں ۔

گذشتہ برس ستمبر کے میں آنے والی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان سے عمرے اور حج کی آڑ میں آنے والے بھکاریوں پر قابو نہ پایا گیا تو اس کا پاکستانی عمرہ اور حج زائرین پر منفی اثر پڑے گا ۔

بھکاریوں کو سعودی عرب بھیجنے والے نیٹ ورک میں بعض ٹریول ایجنٹس بھی ملوث ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کی حراست میں موجود ایک مبینہ بھکاری نے بتایا تھا کہ سعودی عرب جانے کے لیے بعض اوقات ایجنٹ ٹکٹ اور ویزا کے پیسے خود دیتے ہیں۔ اگر کسی بھکاری کے پاس سفر کے لیے مطلوبہ اخراجات نہ ہوں تو اس کا خرچ ٹریول ایجنٹ برداشت کرتا ہے۔ بعدازاں یہ رقم بھیک کی صورت میں ہونے والی آمدن سے کاٹ لی جاتی ہے ۔

مبینہ بھکاری کے مطابق جب کوئی سعودی عرب سے بھیک مانگ کر واپس آتا ہے بھیک کی رقم بھکاری اور ایجنٹ میں برابر تقسیم ہوتی ہے۔

ایف آئی اے نے گذشتہ برس جولائی میں ملتان سے بھکاریوں کو سعودی عرب بھجوانے والےچار ایجنٹس کو گرفتار کیا تھا ۔ اکتوبر 2023 میں ملتان سے بھیک مانگنے کے لیے جانے والے 24 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں 12 مرد 11 خواتین اور ایک بچہ شامل تھا ۔

ان مرد و خواتین کی تلاشی لی گئی تو بھیک مانگنے کے لیے استعمال ہونے والے کشکول برآمد ہوئے تھے۔جب کہ گذشتہ برس نومبر میں ملتان ہی سے سعودی عرب بھیک مانگنے کے لیے جانے والے نو مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا تھا ۔

سینیٹ میں انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 میں ترمیم کے لیے پیش ہونے والے بل میں منظم انداز میں بھیک مانگنے کی تعریف بیان کی گئی ہے۔

ترمیمی بل میں منظم بھیک مانگنے کےلیے کسی کو بھرتی کرنے، پناہ دینے،منتقل کرنے والے شخص کو سات سال تک قید اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

بل کے مطابق منظم بھیک مانگنے سے مراد کسی شخص کو جان بوجھ کر، فراڈ،زور زبردستی بھیک مانگنے یا خیرات وصول کرنے میں ملوث کرنا ہے۔ دھوکہ دہی، زبردستی، ورغلا کر یا لالچ دےکر کسی بہانے سےبھیک مانگنے یا خیرات وصول کرنے میں ملوث کرنا بھی منظم طریقے سے بھیک مانگنے کے زمرے میں آئے گا۔

بل میں قسمت کا حال بتا کر یا کرتب دکھا کر رقم مانگنے کو بھی منظم بھیک مانگنا قرار دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ بل میں اشیا فروخت کرنے کے بہانے، بار بار گاڑیوں کی کھڑکیوں پر دستک دینے، زبردستی گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے جیسے طریقوں سے بھیک مانگنے کا بھی ذکر ہے۔

بل میں ان مقاصد کے لیے افراد کو بیرون بھیجنے اور منظم کرنے کو انسانی اسمگلنگ قرار دیا گیا ہے اور قانون کے تحت سات سال قید اور دس لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

خلیجی ممالک، عراق اور ملائیشیا میں پاکستانی سفارتی مشن بھی ان ملکوں میں بھیک مانگنے کے لیے آنے والوں سے متعلق رپورٹس دے چکے ہیں۔

دفترِ خارجہ کے ایک عہدے دار کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ پانچ لاکھ پاکستانی مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں جن میں لگ بھگ 50 فی صد پاکستانی گلف ریجن میں بستے ہیں۔گلف ریجن میں سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب اور یو اے ای میں مقیم ہیں۔

خلیجی ممالک میں بطور سفارت کار خدمات دینے والے عہدے دار نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستانی بھکاریوں کے پکڑے جانے سے ملک کی بد نامی کے علاوہ پاکستانیوں کے لیے ویزا پالیسی سخت ہوئی ہے اور خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقع میں ایک اندازے کے مطابق 30 فی صد کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بھکاریوں اور دیگر کچھ مسائل کے باعث پاکستان کے لیے سعودی عرب نے ملازمت ویزا پالیسی بہت سخت کردی ہے ۔یو اے ای نے لگ بھگ ملازمت دینا ہی چھوڑ دی ہے یا پھر یو اے ای میں بہت ہی کم پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع مل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ویزا پالیسی سخت کرنے کے علاوہ اس کے اجرا کے عمل کو طویل کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ کمپنیاں پاکستانیوں کو ملازمت نہیں دیتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھکاری نیٹ ورکس کی وجہ سے پاکستان کے لیےسعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور کویت کی ویزا پالیسی برادرانہ نہیں رہی۔ پالیسی میں سختی کی وجہ سے انجنیئرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو بھی رعایت نہیں مل رہی۔

سعودی عرب میں تعینات رہنے والے پاکستان کے ایک سابق سفارت کار نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر وائس آف آمریکہ کو بتایا کہ خلیجی ممالک خاص طور پر سعودی عرب پاکستان سے بھکاریوں کی آمد کا مسئلہ 80 کی دہائی سے اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر وزارتِ خارجہ کو ایسی شکایات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اس مسئلے کو وزارت مذہبی امور اور اوورسیز کی وزارت کے سامنے بھی اٹھایا جاتا ہے ۔

سابق سفارت کار نے بتایا کہ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ(ایم آر پی) سسٹم سے پہلے پکڑے جانے والے بھکاری ہر سال دوسرے نام سے پاسپورٹ بنوا لیتے تھے۔ لیکن ایم آر پی کے بعد ایسا ممکن نہیں ہے اور جعلی پاسپورٹ پکڑا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب بھکاری ایک منظم طریقے سے سعودی عمرے اور حج ویزا پر جاتے ہیں جہاں ان کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو انہیں مختلف مقامات پر لے جانے اور رہائش فراہم کرنے تک کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب میں قائم پاکستانی سفارت خانے نے بھکاریوں کے نیٹ ورک کو روکنے میں سعودی سفارت خانے کی کوتاہیوں کے متعلق سعودی حکام کو کئی بار شکایات کیں۔ لیکن مطلوبہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان اور سعودی عرب مل کر بھکاریوں کے مسئلے کے حل کے لیے کام نہیں کریں گے تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوپائے گا ۔

وزارتِ خارجہ کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ بھکاریوں کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے ایف آئی اے کو ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ ادارے میں موجود ان کے سہولت کاروں کو بھی جواب دہ بنانا چاہیے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button