![](https://vogurdunews.de/wp-content/uploads/2025/02/maryam-nawaz.web_-2-780x470.jpg)
(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کےنام حال ہی میں دوسرا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے نئی قانون سازی سمیت دیگر امور پر بات کی ہے۔فوجی قیادت کی جانب سے عمران خان کے خطوط پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم اِس سلسلے میں سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں س نے بتایا کہ عمران خان کو اِن خطوط لکھنے کا کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے جو مذاکرات چل رہے ہیں وہ 99 پر جا کر رُک جاتے ہیں پھر جو لوگ پسِ پردہ مذاکرات کرا رہے ہیں وہ سب کچھ طے کر کے چلے جاتے ہیں پھر اُس پر کوئی نہ کوئی کاٹا لگ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی کے ذریعے مذاکرات نہ ہونے پر عمران خان نے براہِ راست بات کرنے پر اکتفا کیا۔ اِسی لیے انہوں نے اپنے تمام مسائل فریم کر کے خطوط کی صورت میں لکھ دیے ہیں۔چوہدری غلام حسین کے مطابق عمران خان کہہ چکے ہیں کہ عوام اور فوج لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کو اکٹھے چلنا چاہیے۔یہی بات آج یا بعد میں سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے خط میں عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے کے لیے آرمی چیف کو خط لکھا تھا جس کا جواب غیر سنجیدگی سے دیا گیا۔ خط کا مقصد فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا ہے۔اِس سے قبل عمران خان نے تین فروری کو بھی آرمی چیف کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے فوج کو پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں پالیسیاں تبدیل کرنے کو کہا تھا۔ اُس خط پر فوجی قیادت کی جانب سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تھا۔
پوری دنیا میں آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ ہے صبر، صبر کے ساتھ منصوبہ بندی۔ اُنہیں جتنی جگہ ملتی ہے وہ لیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔پاکستان میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کوئی مثالی جمہوری ملک نہیں ہے جہاں جو جیتے گا وہی آ جائے گا۔ یہاں ایک ہائیبرڈ سسٹم ہے۔ یہاں اسٹیشلشمنٹ کو اور اسٹیک ہولڈرز کو جگہ دینی پڑتی ہے۔