آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم
آئی ایم ایف نے پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ ملک میں پایا جانے والا کرپشن ختم کرنے کی کوشش کی جائے
حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اتفاق کیا ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد اعلیٰ سطحی سرکاری عہدے دار نہ صرف اپنے اثاثے بلکہ وہ اثاثے بھی جو ان کے خاندان کے افراد بالواسطہ طور پر رکھتے ہیں انہیں ظاہر کریں اور ان کی وضاحت پیش کی جائے۔ یہ معلومات عوامی طور پر قابلِ رسائی ہوں گی، تاہم نجی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریعے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔
پاکستان میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کو ظاہر کیا جانا چاہیے تاکہ اگر ان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے پائے جائیں تو انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔ پاکستان میں سیاستدان پہلے ہی سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں، لیکن قانون سازوں کی طرح سرکاری ملازمین کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا جو انہیں ہر سال اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بناتا۔
قانون ساز اور معاشی ماہرین اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بعض اہم معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جن میں عملدرآمد کا طریقہ کار، تحقیقات کی صلاحیت، اور قوانین و طریقہ کار میں موجود وہ خامیاں شامل ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے ناجائز اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
قانون سازوں نے خاص طور پر ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو ہر اچھا کام آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیوں کرنا پڑتا ہے، اور وہ خود سے ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتا، حالانکہ یہ اقدامات ملک سے بتدریج بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہیں۔
سینیٹر پلواشہ بہرام، جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن بھی ہیں، کہتی ہیں،”سرکاری ملازمین کے لیے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا ایک اچھا قدم ہے۔ سیاستدان اپنی تفصیلات جمع کراتے ہیں، تو سرکاری ملازمین کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمیں آئی ایم ایف ہی کیوں ہدایت دیتا ہے؟ ہم خود ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتے۔‘‘
پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں جڑوں تک پھیلی بدعنوانی کے خاتمے کا مؤثر طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف قوانین بنانے کی ضرورت ہے یا کوئی اور مسئلہ بھی موجود ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے؟ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ صرف قوانین بنا دینے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ ایک مؤثر عملدرآمد اور تحقیقات کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے، ”بدعنوانی پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، اسے صرف قوانین بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اعتقادات میں اصلاح ضروری ہے اور ایک مؤثر تحقیقات کا نظام بھی درکار ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے نیب کو ایک متنازع ادارہ بنا دیا، حالانکہ یہ کسی حد تک کرپشن کی تحقیقات کی صلاحیت رکھتا تھا۔‘‘ کامران مرتضی بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کام خود کرنے چاہییں نہ کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر۔
چند ماہرین کا ماننا ہے کہ جب آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو قانون کیا کر سکتا ہے؟ اس کی ایک اہم مثال جنرل باجوہ کے اثاثے ہیں، جن کی مالیت وسیع پیمانے پر شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق دس ارب سے زائد بتائی جاتی ہے۔ تاہم، حکومت نے یہ تحقیقات کرنے کی بجائے کہ انہوں نے اتنے بڑے اثاثے کیسے بنائے، اُن ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کی جو ان کے اثاثوں کی معلومات لیک کرنے میں ملوث پائے گئے۔
ایف بی آر کے سابق سینئر رکن شاہد اسد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین صرف کمزور طبقے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جبکہ یہ بااثر افراد کو چھوتے تک نہیں۔ انہوں نے کہا،”جو لوگ اربوں لوٹتے ہیں، وہ کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ کیا کسی نے جنرل باجوہ سے یہ پوچھا کہ ایک سادہ پس منظر رکھنے کے باوجود انہوں نے اتنی بڑی جائیداد کیسے بنائی؟‘‘
کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نظام میں اتنی خامیاں ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں،”لوگ اپنے اثاثے آسانی سے جائز ثابت کر لیتے ہیں، چاہے وہ کرپشن سے ہی بنے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بیرون ملک مقیم بھائی کا تحفہ ہے یا کسی اور بہانے کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنرل مشرف کا فارم ہاؤس بھی ایک تحفہ قرار دیا گیا تھا۔ آخر طاقتور لوگوں کو اتنے تحفے کیوں ملتے ہیں؟‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے، کیونکہ لوگ ناجائز کمائی کو بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے چاہییں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی ملک میں ایک مخصوص حد سے زیادہ رقم منتقل کرے تو وہ ملک اس سے ٹیکس کی تفصیلات اور دولت کے قانونی ذرائع کی وضاحت طلب کرے۔‘‘
اگرچہ بہت سے لوگ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، لیکن کچھ اسے ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اثاثے ظاہر کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں ہوگا تو اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیٹر پلواشہ بہرام کہتی ہیں، ”کارروائی اپنی جگہ، مگر کم از کم قانون تو بن رہا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے۔ آہستہ آہستہ نظام مزید بہتر ہوگا اور ناجائز دولت رکھنے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔‘‘