![](https://vogurdunews.de/wp-content/uploads/2025/02/gaza.jpg)
فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق نہیں ہو گا، ٹرمپ
انیس جنوری سے جاری فائر بندی نے غزہ پٹی میں 15 ماہ سے زیادہ عرصے کی لڑائی کو روک رکھا ہے اور اسرائیلی یرغمالیوں کے پانچ گروپوں کو سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے آزاد کرایا جا چکا ہے۔
انیس جنوری سے جاری فائر بندی نے غزہ پٹی میں 15 ماہ سے زیادہ عرصے کی لڑائی کو روک رکھا ہے اور اسرائیلی یرغمالیوں کے پانچ گروپوں کو سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے آزاد کرایا جا چکا ہے۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ پر قبضہ کرنے اور اس کے بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی باشندوں کو وہاں سے نکال دینے کی تجویز کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے۔
پیر کے روز صدر ٹرمپ نے دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ ہفتے کی دوپہر تک تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا، تو وہ فائر بندی معاہدہ ختم کرنے کا مطالبہ کر دیں گے۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا، ”جہاں تک میرا تعلق ہے، اگر تمام یرغمالیوں کو ہفتے کے روز دوپہر 12 بجے تک آزاد نہ کیا گیا، جو میرے خیال میں ایک مناسب وقت ہے، تو میں کہوں گا کہ اسے منسوخ کر دیں اور تمام شرطیں ختم ہو جائیں گی اور جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔‘‘
صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی حماس کے مسلح بازو عزالدین القسام بریگیڈز کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ ہفتے کے روز کے لیے طے یرغمالیوں کی آئندہ رہائی ”اگلی اطلاع تک ملتوی‘‘ کر دی جائے گی۔
اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے اسرائیل پر الزام عائد لگایا ہے کہ وہ سیزفائر معاہدے کے تحت اپنے وعدوں بشمول امداد کی ترسیل کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ساتھ ہی گزشتہ اتوار کے روز غزہ پٹی کے تین باشندوں کی ہلاکت کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔
حماس نے بعد میں کہا کہ اس نے پانچ دن پہلے یہ اعلان اس لیے کیا تاکہ ثالثوں کو اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے وقت مل سکے۔
![غزہ ، فلسطینی غزہ ، فلسطینی](https://static.dw.com/image/71419485_906.jpg)
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ حماس کا اعلان جنگ بندی معاہدے کی ”مکمل خلاف ورزی‘‘ ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ لڑائی دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے آئی ڈی ایف (اسرائیلی دفاعی افواج) کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ میں کسی بھی ممکنہ صورتحال کے لیے الرٹ کی اعلیٰ ترین سطح پر تیار رہیں۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے غزہ پٹی کے ارد گرد اپنی ’’تیاری کی سطح‘‘ کو بڑھا دیا ہے اور ”علاقے میں نمایاں طور پر فورس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالیل اسموتریچ، جو غزہ فائر بندی کے شدید مخالف ہیں، نے منگل کے روز ”اب سب‘‘ کا نعرہ اپناتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
فائر بندی کے نفاذ پر مزید بات چیت کے لیے مذاکرات کاروں کی اگلی ملاقات قطر میں ہونے والی تھی، جو ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہوئی۔
سیزفائر کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کا آغاز فائر بندی کے 16ویں دن ہونا تھا لیکن اسرائیل نے اپنے مذاکرات کاروں کو دوحہ بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسرائیلی یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم کے ایک ذیلی گروپ نے پیر کے روز کہا کہ اس نے ”ثالثی کرنے والے ممالک سے مدد کی درخواست کی ہے تاکہ موجودہ معاہدے کو مؤثر طریقے سے بحال کرنے اور اس پر عمل درآمد میں مدد ملے۔‘‘
![غزہ، امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ، امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو](https://static.dw.com/image/71507551_906.jpg)
اتوار کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن سے واپسی کے بعد غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی ٹرمپ کی تجویز کی فاتحانہ لہجے میں تعریف کی اور اسے ”انقلابی‘‘ قرار دیا۔
اس تجویز پر، جس کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ماہرین نے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، پہلے ہی بڑے پیمانے پر تنقید کی جا چکی ہے۔
صدر ٹرمپ نے پیر کے روز کہا کہ اگر امریکی اتحادی اردن اور مصر ان کے متنازعہ قرار دیے گئے غزہ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو لینے سے انکار کرتے ہیں، تو وہ ان کے لیے امداد کو ”ممکنہ طور پر‘‘ روک سکتے ہیں۔
ٹرمپ اسی ہفتے واشنگٹن میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
امداد روکنے کی دھمکی اس وقت سامنے آئی جب قاہرہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے فلسطینیوں کے حقوق پر ”کسی بھی سمجھوتے‘‘ کو مسترد کر دیا ہے۔
![غزہ، قاہرہ ، مظاہرہ غزہ، قاہرہ ، مظاہرہ](https://static.dw.com/image/71568168_906.jpg)
صدر ٹرمپ نے پیر کے روز نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ واپسی کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
ٹرمپ نے کہا، ”میں ان کے لیے مستقل جگہ بنانے کی بات کر رہا ہوں کیونکہ اگر انہیں واپس آنا ہے، تو اس میں کئی سال لگ جائیں گے ۔۔۔ تباہ شدہ غزہ رہنے کے قابل ہی نہیں ہے۔‘‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فلسطینیوں کو واپسی کا حق حاصل ہو گا، ٹرمپ نے کہا، ”نہیں، وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے پاس بہت بہتر مکانات ہوں گے۔‘‘
فلسطینیوں کے لیے، انہیں غزہ سے زبردستی نکالنے کی کوئی بھی کوشش، ان تاریک یادوں کو دوبارہ زندہ کر دے گی جسے عرب دنیا ”نکبہ‘‘ یا ”بڑی تباہی‘‘ کہتی ہیں۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی۔
ٹرمپ کے بیانات کے باوجود اسرائیلی دستوں کے غزہ پٹی میں نستاریم کوریڈور سے انخلا کے بعد غزہ کے بے گھر ہونے والے بہت سے مقامی باشندے واپس اپنے تباہ شدہ گھروں کو جا رہے ہیں۔