
"لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں جھوٹا الزام لگاتی ہیں”
ورک پلیس ہراسمنٹ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ 'می ٹو' مہم کے بعد بڑے بڑے برج گرتے نظر آئے مگر اب بھی کئی ممالک میں ایسی آوازیں آسانی سے دبا دی جاتی ہیں۔
خواتین کو ہراساں کرنا کوئی ڈھکا چھپا مسئلہ نہیں۔ امریکہ ہو یا پاکستان، خواتین کو کبھی گھر کے اندر، تو کبھی گھر سے باہر، اسکول، کالج کے راستے یا دفتر میں ایسے پریشان کن رویوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے زمرے میں آتے ہیں۔ جوں جوں خواتین افرادی قوت میں شامل ہو رہی ہیں، ان کی جانب سے کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کے واقعات کی شکایات بھی سامنے آ رہی ہے۔
کسی جنسی ہراسانی یا ان چاہی جسمانی دست درازی کی کوشش کے خلاف احتجاج اور اس کی شکایت تک پہنچنے کی جرات سے پہلے خاتون کو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ اور جنسی ہراساں کیے جانے کی شکایت کو درج کرانے کے لیے پاکستان میں حالات کتنے سازگار ہیں؟
ورک پلیس ہراسمنٹ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ ‘می ٹو’ مہم کے بعد بڑے بڑے برج گرتے نظر آئے مگر اب بھی کئی ممالک میں ایسی آوازیں آسانی سے دبا دی جاتی ہیں۔
چین کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی علی بابا کی ایک خاتون ملازم کو حال ہی میں ایک سینئر ساتھی پر ریپ کے الزام کی شکایت کے بعد ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ کچھ ہی ہفتوں پہلے چین کی نمبر ون خاتون ٹینس اسٹار پینگ شوائی کی سوشل میڈیا پوسٹ جس میں انہوں نے ملک کے سابق نائب وزیر اعظم پر زیادتی کا الزام لگایا تھا ہٹا دی گئی۔ پینگ شوائی چند ہفتوں کے لیے منظرِ عام سے بھی غائب رہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیا جانا ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے لیکن اس کا حل اس سے نظریں چرانا نہیں بلکہ قوائد و ضوابط بنانا، ان کی آگاہی پھیلانا اور ان پر عمل درآمد ہے۔
پاکستان میں سال 2010 میں ملازمت کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ‘پروٹیکشن فرام ہراسمنٹ آف ویمن ایٹ ورک پلیس’ قانون پاس کیا گیا۔ اس کے اگلے سال وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی کا ادارہ بھی قائم ہوا جس کا کام ہی سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں کام کرنے والی خواتین کی ہراسانی کی شکایات کو سننا اور ان پر فیصلہ دینا ہے۔
فیڈرل اومبڈسمین سیکریٹریٹ فار پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ یا (فوسپاہ) کی موجودہ سربراہ، قانون دان اور سابق رکنِ قومی اسمبلی کشمالہ طارق ہیں۔ جو اس ہفتے ع۔ مطابق میں ہماری مہمان بھی تھیں۔
فوسپاہ کی ویب سائٹ پر نظر ڈالیں تو تقریباً 150 ایسے کیسز نظر آئیں گے جن کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ ان میں کئی ہائی پروفائل کیسز بھی شامل ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اداروں میں عارضی ملازمین کے پاس نہ زیادہ مراعات ہوتی ہیں نہ حقوق۔ ان کی آواز کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہوتی۔ تاہم فوسپاہ کے ایک حالیہ فیصلے میں وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے ایک عارضی ملازم کا جنسی ہراسانی کا کیس سننے کے بعد ڈائریکٹر جنرل پیمرا حاجی آدم کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے شکایت کنندہ کو 20 لاکھ معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
اسے ایک دلیرانہ فیصلہ قرار دیا گیا۔ فروری 2020 میں کیس شروع ہونے پر ڈی جی پیمرا کو پہلے ہی معطل کر دیا گیا تھا تاکہ کیس کی تحقیقات شفاف طریقے سے ہو سکیں۔
سال 2010 کے قانون اور اس کے دائرۂ اختیار پر انسانی حقوق کے کارکنوں کو کئی اعتراضات تھے۔
البتہ اس قانون میں ترامیم کے بعد نہ صرف آجر اور ملازم کی تعریف وسیع ہو گئی ہے بلکہ اب اس قانون کے تحت خواتین کے ساتھ ساتھ مرد اور ٹرانسجینڈرز بھی جنسی ہراسانی کی شکایات درج کرا سکیں گے۔
دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ اداکار، گلوکار، فری لانسرز، آن لائن کاروبار کرنے والے اور گھریلو ملازمین بھی اس قانون کے تحت اپنی شکایات درج کرا سکیں گے۔
اگر آپ بینک یا پاسپورٹ آفس میں ہراسانی کا شکار ہوئے ہوں تو وہ صرف ملزم کے ملازمت کی جگہ ہے، تاہم آپ وہاں کے صارف ہونے کے ناطے شکایت کرنے کے حق دار ہیں۔ اسی طرح طالبِ علم بھی ہراسانی پر اساتذہ کی رپورٹ کرسکیں گے۔
تاہم محمد احمد پنسوٹا کے مطابق گو کہ ہراسانی کی تعریف وسیع کی گئی ہے جس کے بعد جسمانی اور زبانی ہراسانی کے ساتھ ساتھ نہ صرف اشارے، گُھورنا، اور اسٹاکنگ یا مستقل اور مختلف طریقوں سے پیچھا کرنا بھی قابل سزا عمل ہوں گے بلکہ صنف کی بنیاد پر ناپسندیدہ گفتگو اور امتیاز بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ البتہ اس سب کے باوجود ججز کی جانب سے قوانین کی اپنے طور پر تشریح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی ہراسمنٹ ایکٹ میں ترامیم منظور کر لی ہیں۔ صدر پاکستان کے دستخطوں کے بعد جب یہ باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائیں گی تو اس کے ساتھ ہی فوسپاہ کا دائرہ اختیار بھی وسیع ہو جائے گا۔