
امریکہ عسکری پالیسیوں پر یورپ سے گفتگو کرے، جرمن صدر
اشٹائن مائر نے دفاعی اخراجات کو نیٹو کے سابقہ ہدف، جو جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر ہے، سے کہیں زیادہ بڑھانے کی بات کی۔
اس کانفرنس میں یوکرین کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال دو اہم ترین موضوعات ہیں جب کہ ساتھ ہی عالمی مالیاتی نظام، جمہوریت کا لاحق خطرات، موسمیاتی تبدیلی، جوہری تحفظ اور مصنوعی ذہابت کے مستقبل پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔
جرمن صدر اشٹائن مائر نے کہا کہ یورپی ممالک کی جانب سے دفاعی اخراجات میں اضافہ ضروری تھا، جس میں جرمن مسلح افواج (بنڈس ویئر) میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے، تاہم یہ اقدامات خود اطمینانی کا جواز نہیں بن سکتے۔
ان کا کہنا تھا۔ ” ہماری بنڈس ویئر (جرمن مسلح افواج) کو مزید مضبوط ہونا چاہیے، جنگ لڑنے کے لیے نہیں، بلکہ جنگ کو روکنے کے لیے۔‘‘
اشٹائن مائر نے دفاعی اخراجات کو نیٹو کے سابقہ ہدف، جو جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر ہے، سے کہیں زیادہ بڑھانے کی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ نیٹو اتحادیوں نے 2014 ء میں ویلز میں ہونے والی ایک کانفرنس میں دو فیصد ہدف پر اتفاق کیا تھا، لیکن یہ ”ایک مختلف دور اور مختلف خطرے کی صورتحال‘‘ میں طے کیا گیا تھا، جبکہ اب مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ”کسی بھی نئی جرمن حکومت کو اس کے لیے مالی گنجائش پیدا کرنی ہوگی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”ہمیں یورپ اور امریکہ کے درمیان بوجھ کی متوازن تقسیم کی ضرورت ہے۔ نیٹو کو دو یکساں طور پر مضبوط ستونوں پر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ یہ دونوں فریقین کے لیے اپنی قدر برقرار رکھ سکے۔”
امریکی حکومت سے خطاب کرتے ہوئے اشٹائن مائر نے کہا: ”ہم ایک ہی مقصد رکھتے ہیں، لہذا ہمیں راستے کو مربوط کرنا ہوگا۔ کسی بھی صورت میں، ہم میں سے کوئی بھی نیٹو کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے یا طویل مدت میں نیٹو کو سوالیہ نشان بنانے میں دلچسپی نہیں رکھ سکتا۔”
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کو گروپ آف سیون (G7) میں دوبارہ شامل کرنے کی تجویز پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر بیئربوک کہا کہنا تھا، ”جی سیون کے شراکت داروں کے طور پر، ہم نے گزشتہ تین سالوں میں اس سفاکانہ روسی حملے کے بعد بار بار واضح کیا ہے کہ موجودہ روس، یعنی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے روس کے ساتھ معمول کے تعلقات نہیں رکھے جا سکتے۔‘‘
تاہم انہوں نے مزید کہا، ”اگر ہم سب دوبارہ امن کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں اور یہ جارحانہ پالیسی بدلتی ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں ہم مختلف شعبوں میں دوبارہ تعاون شروع کر سکتے ہیں۔‘‘
بیئربوک نے کہا کہ وہ یوکرین میں امن کے لیے کسی بھی سنجیدہ اقدام کا خیرمقدم کرتی ہیں جو ممکنہ طور پر ٹرمپ کے پوٹن کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں سے پیدا ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے زور دیا کہ روس پر مغربی دباؤ "برقرار رہنا چاہیے۔”
یاد رہے کہ 2014 میں کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد روس کو اُس وقت کے G8 گروپ سے نکال دیا گیا تھا اور یہ گروپ G7 بن گیا تھا۔ جرمنی اور امریکہ کے علاوہ، اس کے دیگر ارکان میں فرانس، برطانیہ، اٹلی، کینیڈا اور جاپان شامل ہیں۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے جمعے کو میونخ سکیورٹی کانفرنس میں یورپی حکام کو آزادی اظہار اور غیر قانونی ہجرت پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یورپی رہنماؤں نے جلد از جلد پالیسی نہ بدلی تو عوامی حمایت کھو سکتے ہیں۔
’’اگر آپ اپنے ہی ووٹرز سے خوفزدہ ہو کر بھاگ رہے ہیں، تو امریکہ آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
وینس نے اپنی تقریر میں یوکرینی روسی تنازعے کا سرسری سا تذکرہ کیا۔
انہوں نے غیر قانونی ہجرت کے خلاف بھی یورپی حکام کو متنبہ کیا اور کہا کہ عوام نے آپ کو اس بات کے لیے ووٹ نہیں دیا کہ ”لاکھوں غیر قانونی مہاجرین کے لیے دروازے کھول دیے جائیں۔‘‘
انہوں نے اپنی تاریخ میں میونخ شہر ہی میں جمعرات کو ہونے والے ایک حملے کا حوالہ دیا، جس میں ملزم ایک 24 سالہ افغان تھا جو 2016 میں پناہ گزین کے طور پر جرمنی آیا تھا۔ اس حملے میں 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور اس کے پیچھے ممکنہ طور پر مسلم شدت پسندی کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔
آج جمعے کی شب وینس یوکرینی صدر وولودیمیر زیلینسکی سے ملاقات کریں گے، جس کے بارے میں یورپی مبصرین کو امید ہے کہ یہ ملاقات ٹرمپ کی یوکرینی روسی جنگ سے متعلق حکمت عملی واضح کرے گی۔