انٹرٹینمینٹ

دلائی لاما کی کتاب ’وائس فار وائس لیس‘ کی اشاعت، چین برہم

دلائی لاما کے اپنی کتاب کے بارے میں دیے گئے اس بیان، کہ یہ کتاب  ''تبت کے مستقبل کے لیے ایک فریم ورک‘‘ ہے

تبتی باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما کی آج منگل کو شائع ہونے والی ایک کتاب میں ان کے بقول ’’تبت کے مستقبل کے لیے ایک فریم ورک‘‘ موجود ہے، جو ان کی موت کے بعد بیجنگ سے تعلقات میں ان کے ہم وطنوں کی رہنمائی کرے گا۔

چین کا تبت کے بارے میں موقف

چین کہتا ہے کہ تبت اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ دلائی لاما کے اپنی کتاب کے بارے میں دیے گئے اس بیان، کہ یہ کتاب  ”تبت کے مستقبل کے لیے ایک فریم ورک‘‘ ہے جو ان کی موت کے بعد ان کے ہم وطنوں کی بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں رہنمائی کرے گی، کے جواب میں بیجنگ نے کہا ہے، ”دلائی لاما کو تبتی عوام کی نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

بہت سے جلاوطن تبتیوں کو خدشہ ہے کہ بیجنگ دلائی لاما کے مرنے پر ان کے جانشین کو نامزد کرے گا اور اس طرح  اس سرزمین پر چین کا کنٹرول مضبوط ہو جائے گا، جہاں بیجنگ نے 1950ء میں اپنی فوجیں تعینات کی تھیں۔

2024 ء:  دلائی لامہ کا سوئٹزرلینڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب

کتاب کا اصل عنوان

دلائی لاما کی  اس کتاب کا عنوان ہے: ”وائس فار دی وائس لیس،‘‘ یعنی ”بے آوازوں کے لیے آواز۔‘‘ اس کتاب میں دلائی لاما کے تبت اور اس کے لوگوں کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کے یکے بعد دیگرے رہنماؤں کے ساتھ معاملات کی وضاحت کی گئی ہے۔

بدھ مت کے پاکستانی ماہر، جن کی تعریف دلائی لامہ نے بھی کی

عشروں سے جلاوطن، تبتی روحانی پیشوا لکھتے ہیں، ” تبت کے لوگوں کے اپنے وطن کے رکھوالے ہونے کے حق سے غیر معینہ مدت تک انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی آزادی کی خواہش کو جبر کے ذریعے ہمیشہ کے لیے کچلا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید تحریر کیا ہے، ”تاریخ سے ہمیں جو واضح سبق ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں کو مستقل طور پر ناخوش رکھیں گے، تو آپ کا معاشرہ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتا۔‘‘تبتیوں کی چین کے خلاف بغاوت کے ساٹھ سال

چینی وزارت خارجہ کا بیان

آج منگل کو ایک باقاعدہ پریس بریفنگ میں اس کتاب کے بارے میں ایک سوال پوچھے جانے پر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے دلائی لاما کو ”ایک ایسا سیاسی جلاوطن جو مذہب کے لبادے میں چین مخالف علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

تبتتیوں کی قومی بغاوت کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت میں جلا وطن تبتیوں کا ایک جلوس
چین کہتا ہے کہ تبت اس کا اٹوٹ انگ ہے

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ دلائی لاما کا نسب، حیثیت اور لقب سینکڑوں سالوں سے مرکزی حکومت کی طرف سے متعین کیا جاتا رہا ہے۔‘‘

تبت کی تاریخ

صدیوں سے تبت کی آزادی اور اس کے چین کے کنٹرول میں ہونے کا سلسلہ کافی زیر و بم سے چلتا آ رہا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے ناہموار سطح مرتفع پر واقع تبت کو ”پرامن طریقے سے آزاد‘‘ کیا اور اسے بنیادی ڈھانچہ اور تعلیم دی۔

گزشتہ برس جولائی میں اپنی 90 ویں سالگرہ مناتے ہوئے دلائی لاما ان چند لوگوں میں شامل ہوگئے تھے، جنہیں یاد تھا کہ 1959ء کی ناکام بغاوت سے پہلے ان کا وطن کیسا ہوا کرتا تھا۔ وہ 1959ء میں تبت سے فرار ہو کر بھارت چلے گئے تھے۔ دلائی لاما کہتے ہیں کہ ان کی کتاب میں ان ”مسلسل کوششوں‘‘ کی تفصیلات موجود ہیں، جو انہوں نے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ”اپنے  وطن اور لوگوں کو بچانے‘‘ کے لیے کی ہیں۔

اس کتاب کی اشاعت سے قبل انہوں نے اسی مہینے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا، ”تبتی باشندوں نے تقریباً 75 سال آزادی کے لیے لڑتے ہوئے گزارے ہیں۔‘‘

دلائی لاما کا کہنا ہے، ”تبتیوں کی جدوجہد میری زندگی کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button