پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

جعفر ایکسپریس پر حملہ: یرغمالیوں کی رہائی کےلیے آپریشن جاری، رہا ہونے والے 80 مسافر مچھ سٹیشن پہنچ گئے

بلوچستان کے درہ بولان سے گزرنے والی ایک مسافر ٹرین پر منگل کو عسکریت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے، جس میں انجن ڈرائیور سمیت 10 افراد کی موت کی تصدیق ہوگئی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران 13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے مسافروں کی بازیابی کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن جاری ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق اب تک 80 مسافروں کو رہا کردیا گیا ہے۔ رہا کیے جانے والے مسافروں میں 43 مرد، 26 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں۔

رہا ہونے والے مسافروں کو مال بردار ٹرین کے ذریعے پنیر ریلوے سٹیشن سے مچھ ریلوے سٹیشن پہنچادیا گیا۔ یہ ریلوے سٹیشن جائے وقوعہ سے کوئٹہ کی جانب ہے۔
دو زخمی سکیورٹی اہلکاروں کو بھی مسافروں کے ساتھ مچھ پہنچایا گیا، جنہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے ’خوراک،طبی امداد کی فراہمی اور سکیورٹی کلیئرنس کے بعد مسافروں کو واپس کوئٹہ یا ان کی منزل کی جانب پہنچایا جائےگا۔‘
ایس ایچ او مچھ پیر بخش نے بتایا ’مسافروں کی دیکھ بھال کی جارہی ہے اور ان کے لیے کھانے کا بندوبست کیا گیا ہے کیونکہ کئی مسافروں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اور افطاری بھی نہیں کی تھی۔
بازیاب ہونے والے مسافر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ ایک مسافر بشیر احمد نے بتایا’ پنیر ریلوے اسٹیشن سے گزرنے کے کچھ دیر بعد ہی اچانک دھماکا ہوا اور فائرنگ شروع ہوگئی جس کے بعد ٹرین رک گئی۔‘
انہوں نے بتایا’ فائرنگ کا سلسلہ کچھ دیر جاری رہا اس کے بعد مسلح افراد ٹرین کے اندر داخل ہوئے اور سب مسافروں کو نیچے اترنے کا کہا۔‘
 ’کچھ لوگوں نے اترنے سے انکار کردیا لیکن میں یہ سوچ کر اپنی فیملی کے ہمراہ نیچے اترا کہ اگرحملہ آوروں نے مارنا ہوا تو ٹرین کے اندر بھی ماردیں گے۔‘
 بشیر احمد کا کہنا تھا ’میرے ساتھ بیوی بچے بھی تھے اس لیے مسلح افراد نے مجھے چھوڑ دیا۔‘
ایک اور مسافر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا’ مسلح افراد نے مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے۔ کچھ لوگوں کو ایک طرف اور کچھ کو دوسری طرف کھڑا ہونے کا کہتے بعد میں زیادہ تر ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا جن کے ہمراہ بیوی بچے تھے۔‘
 ٹرین پر حملہ ہوا تو دھماکوں اور فائرنگ کے خوف سے مسافروں نے چیخ و پکار شروع کردی۔ خواتین اور بچے بہت ڈرے ہوئے تھے۔ ہم نے ٹرین کی نشستوں کے نیچے چھپ کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا  ’وہاں بہت خوف کا عالم تھا۔ مسافر ٹرین رکنے کے بعد بھی کچھ فائرنگ ہوئی شاید کچھ مسافروں نے حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت کی کوشش کی۔ حملہ آوروں کی تعداد تعداد بہت زیادہ تھی۔ ان کے پاس راکٹ لانچر، دستی بم، کلاشنکوف، واکی ٹاکی وغیرہ بھی تھے۔‘
کچھ پولیس کے سربراہ ایس ایس پی رانا دلاور کا کہنا تھا’ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے جس میں پاک فوج، کمانڈوز، ایف سی اور دیگر سکیورٹی فورسز حصہ لے رہے ہیں۔‘
متاثرہ ٹرین کے مسافروں کے لواحقین کوئٹہ میں ریلوےسٹیشن پہنچ کر اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان میں سے کوئٹہ کے رہائشی شاہد علی نے بتایا ’ انہوں نے اپنے بھائی کو صبح ریلوے سٹیشن پہنچایا جہاں سے اس نے ٹرین میں سبی جانا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ’ بارہ بجے بھائی نے والد کو فون کرکے بتایا تھا کہ ہم مچھ ریلوے سٹیشن پہنچ چکے ہیں اس کے بعد ہمیں ٹرین پر حملے کی اطلاع ملی تو ہم نے بھائی سے رابطہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی مگر اب تک ان سے رابطہ نہیں ہورہا۔‘
ان کا کہنا ہے’ گھر والے بہت پریشان ہیں بھائی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ریلوے عمران حیات نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے 10 اموات کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں انجن ڈرائیور اور سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے نو مسافر شامل ہیں جو چھٹیوں پر آبائی علاقوں کو جارہے تھے۔ انہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
عمران حیات نے بتایا کہ عسکریت پسندوں میں سے کچھ پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے اور جاتے ہوئے 17 یرغمالی مسافروں کو بھی اپنے ساتھ پہاڑوں کی طرف لے گئے۔

13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا: سکیورٹی ذرائع

کوئٹہ میں سکیورٹی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس دوران سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔‘
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ  آپریشن کے دوران 13 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث دہشت گرد چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
اس وقت سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری علاقے میں آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔
اس سے قبل کوئٹہ کی فضائی ٹریفک مصروف نظر آرہی تھی اور شہر کے فوجی ہوائی اڈے سے بڑی تعداد میں ہیلی کاپٹر کو بولان کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
 بلوچ لبریشن آرمی نے 20 مسافروں کو قتل کرنے اور 182 کو یرغمال بنانے دعویٰ کیا ہے۔ کالعدم تنظیم نے کارروائی کی صورت میں تمام یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
قبل ازیں کوئٹہ ڈویژن کے ریلوے کنٹرولر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حملے کے باعث ٹرین پہاڑی کے اندر بنی ہوئی سرنگ میں رُک گئی ہے۔
انہوں نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسافر ٹرین کوئٹہ سے راولپنڈی اور پشاور جا رہی تھی جس میں سینکڑوں مسافر سوار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرین ضلع کچھی (بولان) کے علاقے مشکاف سے نکل کر سبی کی طرف روانہ تھی، جس پر سبی سے تقریباً 33 کلومیٹر پہلے ضلع کچھی کی حدود میں سرنگ نمبر آٹھ کے قریب حملہ ہوا۔
مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button