کالمزحیدر جاوید سید

دو دعوئوں پر خاک پڑی…….حیدر جاوید سید

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے تو اول اول انہیں آصف علی زرداری کی پسند قراردیا گیا پھر انصافی یوٹیوبر نے دعویٰ کیا کہ ان کی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے قریبی رشتہ داری ہے

چند دن ہوتے ہیں جب وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر محسن نقوی سے سوال ہوا، بلوچستان میں قیام امن کے لئے حکومت کیا اقدامات کرنے جارہی ہے اور کیا بڑے پیمانے بڑے آپریشن کے لئے غور کیا جارہا ہے؟ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے پہلو میں کھڑے وفاقی وزیر داخلہ بولے ’’کسی آپریشن کی ضرورت نہیں شرپسندوں کی کوئی اوقات نہیں یہ ا یک ایس ایچ او کی مار ہیں‘‘۔
سی این این کے راستے پاکستانی صحافت میں اترنے پھر ایک میڈیا ہائوس کا سربراہ بننے والے سید محسن نقوی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ایس ایس پی اشرف مارتھ شہید کے داماد اور گجراتی چودھریوں کی جوڑی (اب سابق) میں سے ایک چودھری پرویزالٰہی کی بھانجی کے شوہر ہیں وہ پنجاب سے آزاد حیثیت سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں نے انہیں ووٹ دیئے۔
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے تو اول اول انہیں آصف علی زرداری کی پسند قراردیا گیا پھر انصافی یوٹیوبر نے دعویٰ کیا کہ ان کی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے قریبی رشتہ داری ہے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر وہ جی ایچ کیو کا انتخاب ہیں۔ فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد سینیٹر بنے اور وفاقی وزیر داخلہ بنادیئے گئے۔ اس کےساتھ ہی وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی ہیں۔
طاقتور ترین وفاقی وزیر سمجھے جانے والے محسن نقوی لگ بھگ تین عشروں سے صحافت میں ہیں لیکن جب انہوں نے بلوچستان میں جاری بدامنی کے ذمہ داروں کو ’’ایک ایس ایچ او مار قرار دیا‘‘ تو دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی حیرانی ہوئی۔ حیرانی وزیر داخل کے دہن سے نکلے الفاظ پر نہیں بلکہ ایک منجھے ہوئے صحافی کی زبان دانی پر تھی اور ہے
جن شدت پسندوں کو وہ ایک ایس ایچ او کی مار قرار دیتے تھے انہوں نے منگل 11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر قبضہ کرکے چار سو کے لگ بھگ مسافروں کو یرغمال بنا لیا ، جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں سوشل میڈیا پر دو متوازی خبریں ’’دوڑ‘‘ رہی ہیں ایک یہ کہ مسلح جنگجوئوں نے جعفر ایکسپریس کو آگ لگادی ہے اور بارہ افراد موت کا رزق ہوئے۔ دوسری خبر کے مطابق فوجی آپریشن سے 350 مسافروں کو چھڑالیا گیا ہے جبکہ بی ایل کے جنگجو 90 مسافروں کو لے کر روپوش ہوگئے ہیں۔
ان دونوں خبروں کے بیچوں بیچ بی ایل اے کے ترجمان نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے خواتین بچوں اور عام بلوچ شہریوں کو خیرسگالی کے جذبہ کے تحت رہا کردیا ہے جو لوگ ساتھیوں کی تحویل میں ہیں ان کا تعلق ریاستی اداروں سے ہے۔ دو دن (اس تحریر کے لکھے جانے سے) میں بلوچستان میں بدامنی کے چار بڑے واقعات ہوئے ان میں سے سندھ سے تعلق رکھنے والے تین حجاموں کا سفاکانہ قتل بھی شامل ہے ۔
سوشل میڈیا پر جعفر ایکسپریس پر بی ایل اے کے جنگجوئوں کے قبضے کے بعد سے طوفان برپا ہے۔ کچھ پنجابی قوم پرست منہ بھر کے گالیاں دیتے اور چند ایک ریاستی اسٹیبلشمنٹ کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔ کیا فقط مقامی وسائل پر غیرمقامی تسلط کا ردعمل ہے ؟ میرے خیال میں بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے 1948ء میں ریاست قلات پر ہوئی لشکر کشی اور بعدازاں مختلف ادوار کے فوجی آپریشنوں کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کے سفاکانہ قتل کے پس منظر کا تجزیہ ازبس ضروری ہے۔
نواب اکبر بگٹی اپنے قتل سے قبل اسٹیبلشمنٹ کے ’’بڑے محب ‘‘ کا درجہ رکھتے تھے قتل کے بعد وہ مسلح جدوجہد کرنے والوں کے ہیرو بن گئے۔ وہ بلوچستان کے گورنر، وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر بھی رہے نیپ اور جے یو آئی مفتی محمودگروپ کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے وقت وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے مینگل حکومت کی برطرفی پر بلوچستان کے گورنر بنادیئے گئے۔ اس واقعہ کے بعد سے وہ طویل عرصے تک ترقی پسند قوم پرست بلوچوں کے ولن رہے
ان کے لئے ہمدردی کی پہلی لہر ڈاکٹر شازیہ کیس پر اپنائے گئے موقف کی بدولت پیدا ہوئی اس کیس میں وہ بلوچ روایات کے امین کے طور پر مشرف کی فوجی حکومت کے سامنے ڈٹ گئے۔ بلوچستان میں عمومی ناراضگی قلات پر لشکر کشی سے پیدا ہوئی وقت کے ساتھ ساتھ ناراضگی نفرت میں تبدیل ہوتی گئی ۔ مقامی وسائل پر مقامی حق سے شروع ہوئی بات آج قومی آزادی کی جدوجہد صورت میں دیوار پر لکھی ہے۔ ناراض بلوچوں کی مسلح جدوجہد کو جو جی چاہے نام دیجئے لیکن کچھ سوالات اتنے تلخ ہیں کہ سننے والوں کی پیشانیاں پسینے سے بھیگ جاتی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب تربت میں ضلع کچہری سے اغوا کئے گئے لالہ غلام محمد بلوچ کو ہیلی کاپٹر سے پھینک کر موت کا رزق بنایا گیا تھا تو مجھ طالب علم نے بلوچستان کے مسئلہ پر سلسلہ وار کالموں میں عرض کیا تھا ’’ ایک ایسا شخص ماردیا گیا جو بلوچ زمین زادوں کا ترقی پسند عوامی چہرہ تھا اور وہ غیرطبقاتی سماج کے قیام کا علمبردار بھی‘‘۔
لالہ غلام محمد کا اغوا اور قتل گو پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے اور بعد میں سینکڑوں ایسے واقعات رونما ہوئے۔
مختلف الخیال بلوچ تنظیموں کی مسلح جدوجہد کے جواب میں ریاستی کارروائیوں کو رٹ برقرار رکھنے کا حق قرار دیا گیا۔
ہمارے ہاں سنجیدہ تجزیے کم اور ڈھکوسلے برانڈ سازشی تھیوریاں چونکہ زیادہ فروخت ہوتی ہیں اس لئے بلوچستان سے باہر دوسرے تین صوبوں کے لوگوں کی اکثریت یہی جانتی سمجھتی ہے کہ کچھ بین الاقوامی قوتیں اور بھارت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ایک رائے یہ بھی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرائے گئے اس جہاد کا جواب ہے جس کی پشت بان پاکستانی ریاست تھی۔
کیا ہمارے ہاں مطالعہ پاکستان کی دانش کے اسیر اس حقیقت کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ بلوچستان کچھ لوگوں اور طبقوں کے لئے سونے کی چڑیا ہے۔ سہل انداز میں سجھنا چاہتے ہیں تو عاصم سلیم باجوہ المعروف بابا جونز والے اور پھا آصف غفور کے اثاثوں کا حساب لگالیجئے۔
لگ بھگ دو دہائیوں سے ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں دہشت گردی اور نسل کشی کے واقعات کوئی بھی کرے غلط ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی یہی رائے ہے۔ ہماری ریاست نے بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ہمارے ہاں تو ایسے ایسے نابغے پائے جاتے ہیں جو کہتے تھے ’’ایک کروڑ پنجابیوں کولے جاکر بلوچستان میں بسادو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا‘‘۔
اب بھی چند نابغے دعویٰ کررہے ہیں کہ جعفر ایکسپریس سمیت حالیہ چند واقعات فرمائشی ہیں اصل میں چین نے کہا ہے کہ مسلح جنگجو ختم کرو۔
یعنی کوئی بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلح بلوچ جنگجوئوں کے ہاتھوں غیرمقامی محنت کشوں کے قتل کو درست کہنا یا ردعمل کے کھاتے میں ڈالنا حقائق سے منہ چرانے کے مترادف ہے۔ محنت کش غیرمقامیوں کا قتل جذبہ آزادی کا اظہار نہیں کھلی درندگی ہے لیکن اس کی مذمت کرتے ہوئے زمینی حقائق کو فراموش کردینا بھی غلط ہوگا۔ ماردو کچل دو صاف کردو، یہ تین باتیں جو بھی کرتا ہے وہ امن انسانیت اور اخلاقی اقدار کا مجرم ہے۔
ہمیں بلوچستان کے مسئلہ کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی ۔
بہت ادب سے عرض ہے دو انتہائوں میں سے کسی ایک انتہا کو حرف آخر سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔
جعفر ایکسپریس کے واقعہ نے دو دعوئوں پر خاک مل دی ہے اولاً اس کے کہ یہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ ثانیاً اس کے کہ بلوچستان میں مکمل طور پر حکومتی رٹ قائم ہے۔
سنجیدہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے سازشی رام لیلائیں سنانے اور فروخت کرنے کی بجائے مکالمہ کا دروازہ کھولنا ہوگا ورنہ آئے دن کوئی کودن نما شخص آپ کو یہ کہتا ملے گا
’’بلوچستان کی بدامنی کے پیچھے ایران ہے کیونکہ ایرانی تیل کے کنویں نچلی سطح پر ہیں پاکستان کی سرزمین سے سارا پٹرولیم ’’نچڑ‘‘ کر ایرانی کنوئوں میں چلاجاتا ہے‘‘۔
بار دیگر عرض ہے طاقت کے مظاہرے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button