
جعفر ایکسپریس اور فیلڈ مارشل ایوب کے پوتے کا بھاشن……حیدر جاوید سید
اس کے دادا اور پاکستان میں دستور سے پہلا بلاتکار کرنے والے جنرل ایوب خان کے دور میں ناراض بلوچوں کو پہاڑوں سے ا ترنے کی دعوت دیتے ہوئے قرآن پر حلف دیا گیا
بدھ کی شام جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اس سے کچھ دیر قبل سکیورٹی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ’’جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے والے ” تمام ” مسلح جنگجوئوں کو ماردیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز نے انتہائی مہارت اور احتیاط کے ساتھ بڑی تعداد میں مسافروں کو رہا کرالیا ہے ۔ نیز یہ کہ اس حملے میں شہید ہونے والے مسافروں کی تعداد کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 190 مسافر رہا کروائے جاچکے تھے‘‘۔ امید ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے نہ صرف صورتحال واضح ہوچکی ہوگی بلکہ مصدقہ حقائق بھی سامنے لائے جاچکے ہوں گے۔
بدھ کو ہی قومی اسمبلی میں پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے پوتے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے رودالو عورتوں کی طرح ’’وین‘‘ ڈالے اور مگرمچھ کے آنسو بہائے۔ عمر ایوب نے دو تین دن ادھر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو پر دریائے سندھ کا پانی فروخت کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ دریا کے پانی کی فروخت پر بات کرتے ہیں پہلے 20 برسوں میں 4 سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے والے عمر ایوب کے ’’سیاپے‘‘ پر بات کرلیتے ہیں ۔
اس کے دادا اور پاکستان میں دستور سے پہلا بلاتکار کرنے والے جنرل ایوب خان کے دور میں ناراض بلوچوں کو پہاڑوں سے ا ترنے کی دعوت دیتے ہوئے قرآن پر حلف دیا گیا تھا کہ نہ صرف بلوچستان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے بلکہ پہاڑوں سے اترنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جائے گی ، مگر ہوا اس کے برعکس۔ فوجی حکومت نے نہ صرف پہاڑوں سے اترنے والوں کے خلاف کارروائی کی بلکہ سات افراد کو پھانسی چڑھادیا۔
پہاڑوں سے اترنے و الے بلوچوں کے لیڈر ملک نوروز خان کی عمر اس وقت 85 برس تھی۔ آئین شکن فوجی سربراہ ایوب خان کی حکومت نے قرآن مجید پر دیئے گئے حلف کو توڑا ان کے پوتے کو مگرمچھ کے آنسو بہانے کی بجائے اپنے ڈکٹیٹر دادا کی اخلاق باختگی اور بدعہدی پر معافی مانگنا چاہیے تھی۔
جہاں تک دریائے سندھ کا پانی فروخت کے الزام کا تعلق ہے تو ستلج و بیاس وغیرہ بھارت کو بیچنے اور سندھ طاس کے معاہدے کا ’’طوق‘‘ پاکستان کے گلے میں ڈالنے والے جنرل ایوب خان ہی تھے۔
یہ آئین اور عوام دشمن کام کسی اور ملک میں ہوئے ہوتے تو انجام دینے والوں کی اولاد گمنامی کی زندگی بسر کررہی ہوتی یہ پاکستان ہی ہے جہاں آئین سے بلاتکار کرنے والے پہلے فوجی حکمران ایوب اور تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی اولادیں نہ صرف بے شرمی سے زندہ ہیں بلکہ سیاسی عمل میں حصہ لے کر وزیر و لیڈر وغیرہ بھی بنتی ہیں۔
عمر ایوب اس پہلے فوجی ڈکٹیٹر کے پوتے ہیں جو سازشوں کے ذریعے سینئرز کو راستے سے ہٹواکر کمانڈر انچیف بنے اور پھر ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئے بڈھ بیر کا ایئربیس امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے دینے والے فوجی حکمران ایوب خان امریکہ کی اس خدمت کے عوض سی آئی اے کے وظیفہ خوار رہے آج اس کا پوتا ہمیں سمجھارہا ہے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے انسانی حقوق کیا اور ’’سکھا شاہی‘‘ کسے کہتے ہیں۔
تمہید طویل ہوگئی ہم جعفر ایکسپریس والے معاملے پر بات کرتے ہیں۔ منگل کی صبح 9 بجے کوئٹہ سے پشاور روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس لگ بھگ دو گھنٹے کے اندر یرغمال بنالی گئی پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ’’دروٹ‘‘ لی۔ ابتدائی خبریں علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے توسط سے سامنے آئیں۔
سنجیدہ حکومتی موقف میں تاخیر کی وجہ سے افواہوں کو پَر لگ گئے۔ ذرائع ابلاغ نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کیا۔ کیا 50 کے لگ بھگ نیوز چینلز صرف ’’ککڑ لڑانے‘‘‘ کے پرائم ٹائم پروگراموں کے لئے ہیں اور انویسٹروں کے لئے میدان سازگار بنانے کے لئے؟
ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ عام آدمی پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اب سنجیدہ نہیں لیتا اس کے خیال میں ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ ریاستی درباری ہے اور باقی ماندہ اپنی اپنی انویسٹر سیاسی جماعت کا بھونپو۔
ہم چاہیں بھی تو لوگوں کی اس سوچ کو غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ بداعتمادی کی فصل ذرائع ابلاغ نے خود کاشت کی ہے۔ کیا لولی لنگڑی جمہوری حکومت میں اتنا دم خم ہے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنالئے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ نے افواہوں کے سیلاب کے آگے سنجیدہ اور حقیقی رپورٹنگ سے بندھ باندھنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
سادہ سا جواب ویسے یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ آج کی حکومت کا اختیار اور حصہ دونوں صرف اپنے سیاسی مخالف کو رگیدتے چلے جانے تک محدود ہے ۔
جعفر ایکسپریس کر یرغمال بنالئے جانے کے واقعہ نے اس ملک (پاکستان کو) جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ کوئی قابل فخر کیا قابل ذکر مقام بھی نہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ وہ لوگ بھی سوشل میڈیا پر دانش بھگار رہے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی بلوچستان کا سفر تک نہیں کیا۔
ان میں سے زیاہ تر لوگ وہ ہیں جن کے والد اور چچا ماموں کہا کرتے تھے ’’ہم سوئی گیس نہ خریدیں تو بلوچستان کی سوئی گیس زمین کے اندر پڑی پڑی سڑجائے گی‘‘۔
جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے والے واقعہ کے حوالے سے ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ٹرین پر قبضہ کرنے والوں نے سب سے پہلے ٹرین میں موجود عملے سے بکنگ فہرست حاصل کی اور اس سے انہیں معلوم ہوا کہ ٹرین کے کس ڈبے میں سکیورٹی فورسز کا اہلکار مسافر کے طورپر موجود ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلح جنگجوئوں نے سب سے پہلے انہیں دوسرے مسافروں سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لیا۔
دوسرے مرحلے پر مسلح افراد نے اپنے ہم قوم مسافروں کو یرغمالیوں سے الگ کرکے آزاد کردیا ان کی تعداد 80 سے 100 کے قریب تھی۔ بہرطور یہ ذرائع کی اطلاعات ہیں اگر ٹھوس تحقیقات ہوئیں تو حقیقت حال واضح ہوگی لیکن کیا عوام کبھی حقیقت حاصل جان پائیں گے؟ یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
یہ امر بہر طور حقیقت ہے کہ ٹرین یرغمال بنائے جانے کے واقعہ سے جہاں حکومتی رٹ کے دعوے ہوا ہوئے وہیں درجن بھر سے زائد ایجنسیوں کی کارکردگی کا بھی بھانڈہ پھوٹ گیا۔ سوویت یونین کو ’’مار‘‘ دینے والی ایجنسیوں کو یہ خبرہی نہ ہوپائی کہ ٹرین یرغمال بنائی جاسکتی ہے۔
ہماری دانست میں عدم استحکام اور دوسرے مسائل کے ساتھ بلوچستان کی ابتر صورتحال پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ داخلی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔
کیا ہمارے اہل اقتدار میں اتنے ’’تپڑ‘‘ ہیں کہ وہ ان سارے مسائل و معاملات پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں غورفکر کی زحمت کرسکیں؟
مجھ طالب علم کا جواب نفی میں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سیاست برائے خدمت خلق کی بجائے حصول اقتدار بذریعہ خوشنودیء اسٹیبلشمنٹ ہو تو پھر یہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔
جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے کا واقعہ سنگین نوعیت کا تھا اس کی درست درست خبر دینے میں ذرائع ابلاغ کو کئی گھنٹے لگ گئے یہی ایک بات اس امر پر غور کرنے کی دعوت ہے کہ کیا بلوچستان میں جو ہورہا ہے(آج سے نہیں عشروں سے) ہمارے ذرائع ابلاغ اس کی درست رپورٹنگ اور حقیقی تصویر باقی ماندہ ملک کے سامنے رکھ پائے یا رکھ سکتے ہیں؟
حیران کن بات ہے جس صوبے میں چپے چپے پر چیک پوسٹیں ہیں اسی صوبے میں منظم منصوبہ بندی کے ذریعے چار ساڑھے چار سو مسافروں سے بھری ٹرین کو مسلح افراد یرغمال بنالیتے ہیں ۔
کیا اس واقعہ کے بعد دیگر معلاملات کے ساتھ اپنی ہمہ قسم کی ایجنسیوں کی کارکردگی کا ازسرنو جائزہ لینے اور غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت نہیں؟
بالکل ہے لیکن امید نہیں کہ دونوں کام ہوں کیونکہ افسوسناک واقعات اور سانحات پر تو سکیورٹی اسٹیٹ کا کاروبار چلتا اور پھلتا پھولتا ہے۔