
پھر نئی صبح کا آغاز ہو گا……ناصف اعوان
وہ ذاتی مسائل پلک جھپکتے میں حل کر لیتے ہیں اپنی تنخواہیں بھی آسانی سے بڑھا لیتے ہیں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو نواز کر ان کی پریشانیاں بھی دور کر لیتے ہیں
ملک عزیز میں نجانے کب امن قائم ہو گا اور کب خوشحالی آئے گی کچھ معلوم نہیں۔ جو بھی دن آتا ہے اپنے ساتھ تلخیاں ہی لے کر آتا ہے اب یہ اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اعصاب شل ہونے لگے ہیں اس کے ساتھ مایوسی میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے مگر ارباب اختیار کو اس کا شاید علم نہیں وہ سب اچھا کی رٹ لگائے جارہے ہیں جبکہ سب اچھا نہیں ۔معذرت کے ساتھ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا عوام کے دیرینہ مسائل حل ہو گئے ہیں تشدد پسندی کا خاتمہ ہو گیا اور کیا عوام کو سستا اور آسان انصاف ملنے لگا ہے ان سوالوں کے جوابات وہ یہ دیں گے کہ انہیں دس بیس برس چاہیے ہوں گے ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لئے ۔ جبکہ وہ ذاتی مسائل پلک جھپکتے میں حل کر لیتے ہیں اپنی تنخواہیں بھی آسانی سے بڑھا لیتے ہیں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو نواز کر ان کی پریشانیاں بھی دور کر لیتے ہیں مگر غریب عوام کے لئے ان کے پاس فنڈز ہیں نہ وقت ۔اصل میں خلوص نیت کی کمی ہے اور کچھ نہیں۔ان میں لوگوں کے لئے محبت و پیار نہیں انہیں اگر انسان سمجھا جائے ان کے دکھوں کو محسوس کیا جائے تو ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی نہ ہی فنڈز کا بہانہ بنایا جا سکتا ہے ۔
ہسپتال ہوں عدالتیں ہوں تھانے ہوں یا پٹوار خانے ان سب میں جو عوام کا حال ہوتا ہے وہ اہل اقتدار کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ رُل رہے ہیں لوگ مگر انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ۔”جاوید خیالوی کہتا ہے عوام کو دانستہ بے چین رکھا جاتا ہے ان کو بہتر تعلیمی سہولتیں بھی جان بوجھ کر نہیں دی جاتیں تاکہ یہ زیادہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں پر متمکن نہ ہو سکیں اور ان کے لئے مشکلات نہ پیدا کر سکیں لہذا انہیں الجھاؤ میں رکھا جاتا ہے ایک خوف کی فضا کو جنم دے کر خود کو محفوظ کیا جاتا ہے جو کوئی شور مچائے احتجاج کرے اس کا ”قانونی“ طور سے بندوبست کر دیا جاتا ہے اس صورت میں ترقی کیسے ہو سکتی ہے عوام کو چین کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کو عوام سے کوئی بہت بڑا شکوہ ہے جس کا اظہار وہ نہیں کرتے اور انہیں اذیتیں دینے کے اسباب پیدا کرتےچلے جاتے ہیں ” ہمیں بھی کچھ کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے وگرنہ مہذب ممالک میں حکومتیں اپنے شہریوں کو ہر نوع کی اذیت سے بچاتی ہیں ان کے لئے ہر وقت بہتر منصوبہ بندی کرنے میں مصروف رہتی ہیں ان کے مسائل پر غور کرتی ہیں مگر افسوس صد افسوس ہماری ہاں کی حکومتیں چالاکیاں دکھاتی ہیں نت نئے ٹیکس تخلیق کرکے لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے لاتی ہیں عالمی مالیاتی اداروں کو راضی رکھنے کے لئے ان کی ہر ایک شرط کو تسلیم کرتی ہیں۔بڑی طاقتوں کو بھی خوش کرتی ہیں اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں ۔ستتر برس سے یہی کچھ ہو رہا ہے ۔نتیجتاً اب معیشت کی کشتی ڈوب رہی ہے جس کو کنارے تک لانے کےلئے بھاری قرضے لئے جا رہے ہیں یعنی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہےتاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے مگر عوام کو اب بھی بیوقوف سمجھا جا رہا ہے اب بھی جاہل تصور کیا جارہا ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں وہ نہ تو احمق ہیں اور نہ ہی شعور سے عاری ۔ انہیں خوب ادراک ہے ہر بات کا ۔وہ اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ بڑے بڑے تجزیہ کار وں کی طرح حالات و واقعات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں پھر تجربہ بڑی چیز ہوتی ہے۔ مسلسل دھوکا کھانے سے انہیں اپنے اقتداریوں کے بارے میں سب علم ہوچکا ہے لہذا اب جب اہل اقتدار اپنے تئیں بڑی ”سمجھ بوجھ“ والی باتیں کرتے ہیں اور خوشحالی آرہی ہے کی ”نوید“ دیتےہیں تو وہ سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب انہیں باتوں اور بیانوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا اطمینان دلانے کا واحد راستہ انصاف پر مبنی پالیسیاں ہونی چاہیں معاشی حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے فلاحی منصوبے بنائے جائیں اقتدار میں عوام کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ کیا ہے کہ ایوانوں میں وہ لوگ جائیں جو لوگوں کو انسان ہی نہ سمجھتے ہوں مال پانی بناتے ہوں اور دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہوں موروثی سیاست کو فروغ دیتے ہوں مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ وہ کچھ اچھا کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہے کیونکہ ان کی رگوں میں خود غرضی دوڑنے لگی ہے اور عوام سے وہ دور جا چکے ہیں لہذا جو بھی کرنا ہے عوام ہی کو کرنا ہے۔ موجودہ حکومت ہی کو دیکھ لیجئیے وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس پر الزام ہے کہ وہ فارم سینتالیس کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے یورپ میں کسی رکن پارلیمنٹ پر ایسا الزام لگ جائے تو وہ اقتدار چھوڑ کر اس کا سامنا کرتا ہے مگر یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ حکومت میں آنے کا شوق ہر اصول اور ہر ضابطہ بھلا دیتا ہے ایسی حکومت سے عوامی فلاح کی امید نہیں کی جاسکتی وہ جو کوئی تھوڑا بہت کچھ کرے گی بھی تو محض دکھاوا ہو گا ؟
بات کرنے کی نہیں کہ کوئی سن رہا ہے نہ دیکھ رہا ہے لہذا اب تو جی چاہتا ہے کہ لکھنا بولنا اور سوچنا بند کر دیا جائے پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ اس سے ضمیر کچوکے لگائے گا لہذا کچھ نہ کچھ کہتے رہنا ہے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آخر کار یہ رُت تبدیل ہونی ہی ہے لہذا سوچتے رہیے زنجیر ہلاتے رہیے !
بہر حال اب جب پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے تو بھی فریقین کی آنکھیں نہیں کھل رہیں وہ ابھی بھی باہم دست و گریبان ہیں حالات اپنے معاشی و سماجی مخدوش ہیں ۔بلوچستان ہو یا کے پی کے ان میں صورت حال عجیب شکل اختیار کرتی جا رہی ہے بقول شاعر
خدا کرے کہ اب آئے نہ آندھیوں کا موسم
ہم ہیں ریگ ساحل آبلہ پا کھڑے ہوئے
ہمارے اختیار والے جو سوچ رہے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں ۔ عوام کو پورا نہ سہی تھوڑا ہی سہی معلوم ہونا چاہیے تاکہ ان میں پائی جانے والی بے چینی کم ہو سکے مگر یاد آیا ان کی تو کوئی حثیت ہی نہیں وہ ” اڈیاں چُک چُک کے ویکھ رہے نیں“اپنے حاکموں کی طرف کہ وہ ان کی جانب ایک نظر دیکھ لیں کہ انہیں کچھ حوصلہ ملے اور وہ کہہ سکیں انہیں ان (عوام) کا خیال ہے مگر ایسی قسمت کہاں ؟ انہیں تو اپنے اوپر دیکھنا ہے جسے وہ بخوبی دیکھ رہے ہیں مگر لوگو ! یہ دن باقی نہیں رہیں گے‘ بدل جائیں گے پھر ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گا جو ہمیشہ ست رنگی نظر آئے گی لہذا مایوس نہیں ہونا !!