
رپورٹ(سید عاطف ندیم-پاکستان):
مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت کئی دیگر دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔ کوئٹہ میں اب تک بی وائی سی کے خلاف تین مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
مستونگ، قلات، خاران، چاغی، پنجگور، تربت اور کئی دوسرے شہروں میں احتجاج کی وجہ سے کاروباری و تجارتی مراکز بند رہے۔ تربت میں مظاہرین نے تربت کراچی شاہراہ کو احتجاجاً بند کر رکھا ہے۔
کراچی سے متصل حب میں بھوانی کے مقام پر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف دھرنا دے کر کوئٹہ کراچی شاہراہ بند کرنے والے مظاہرین کو پولیس نے اتوار کی صبح آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کرکے منتشر کردیا۔ پولیس کے مطابق شاہراہ ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی ہے۔
کوئٹہ میں بی وائی سی کی جانب سے دو دنوں سے جاری دھرنا ختم ہونے کے بعد معاملات زندگی بحال ہوگئے ہیں۔ کوئٹہ میں سریاب روڈ دو دنوں بعد ٹریفک کے لیے کھل گیا۔
بی وائی سی کا الزام تھا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال اور مظاہرین کی آڑ میں سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی جانب سے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے خطرے کے پیش نظر احتجاج ختم کیا گیا۔
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اتوار کی شام کو دوبارہ احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے جس سے ایک بار پھر شہر میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اس سے قبل جمعے اور سنیچر کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے دوران فائرنگ سے تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
بی وائی سی نے فائرنگ اور ہلاکتوں کا الزام پولیس پر لگایا جبکہ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے سنیچر کو ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ ’تین افراد کی ہلاکتیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے ساتھ موجود مسلح غنڈوں کی فائرنگ سے ہوئیں۔‘

کوئٹہ پولیس کے ایک آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پر تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف اب تک سول لائن، بروری اور سریاب پولیس تھانوں میں تین مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔
سریاب پولیس تھانہ میں 22 مارچ کو درج کی گئی ایف آئی آر میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات اور 11 ڈبلیو کے علاوہ تعزیرات پاکستان کی 16 دفعات لگائی گئی ہیں۔
یہ دفعات دہشت گردی، قتل، اقدام قتل، لوگوں کو تشدد و بغاوت پر اکسانے، فساد اور نسلی منافرت پھیلانے اور املاک کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔
مقدمے میں ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کی قیادت پر بلوایوں کی مدد سے پولیس اہلکاروں، راہ گیروں، عام شہریوں اور اپنے ہی مظاہرین ساتھیوں پر فائرنگ کرکے تین افراد کے قتل اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت دیگر کو زخمی کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
مقدمے میں بیبو بلوچ، گلزادی ساتکزئی، صبیحہ بلوچ، صبت اللہ بلوچ، گلزار دوست، ریاض گشکوری، ڈاکٹر شیلی بلوچ اور ڈاکٹر بے نظیر کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ اور بی وائی سی کے رہنماؤں پر سول ہسپتال پر حملے اور جعفر ایکسیرپس ٹرین پر مبینہ حملہ آوروں کی لاشیں زبردستی لے جانے کے الزام میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
کوئٹہ کے سول لائن تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق بدھ کی شام کو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی ایما پر 100 سے 150 افراد نے سول ہسپتال پر دھاوا بولا، مردہ خانے کے دورازے کو توڑ کر اندر داخل ہوئے اور جعفر ایکسپریس ٹرین حملے میں ملوث دہشت گردوں کی لاشیں زبردستی لے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے ہاکی چوک میں ایک پرائیویٹ ایمبولینس کو روکا، اس کے ڈرائیور کو زدوکوب کیا اور لاشوں کو ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے۔
ملزمان پر غداری، ہنگامہ آرائی، غیر قانونی اجتماع، پولیس کے کام میں مداخلت، نسلی منافرت پھیلانے، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہچانے سے متعلق تعزیرات پاکستان کی دفعات اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 ڈبلیو لگائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ کوئٹہ کے پولیس تھانہ بروری میں ایس ایچ او محمود خروٹی کی مدعیت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما گل زادی بلوچ، علی جان عرف پنل، شعیب، سید نور شاہ، وحید، جہانزیب، زوہیب بلوچ سمیت سو سے زائد افراد کے خلاف مقدہ درج کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ سنیچر کو کوئٹہ میں مغربی بائی پاس سڑک کو بند کرنے، ریاست اور ریاستی اداروں کے خکلاف نعرے بازی اور عوام کو اشتعال دلانے کے الزامات میں درج کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں مظاہرین نے جمعے کی شب لاشیں سریاب روڈ پر رکھ کر دھرنا شروع کر دیا تھا۔ سنیچر کو پولیس نے دھرنا دینے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا۔
