
"ہمیں دو طرفہ حمایت حاصل ہے، اور میں اس کے لیے امریکہ کا شکر گزار ہوں۔”وولودیمیر زیلنسکی
امریکہ وہ طاقت دکھائے گا جس کا انہوں نے ذکر کیا،انہیں امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ان کے ملک کے اتحادیوں کو روس کا سامنا کرتے وقت اسی سختی اور طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسا یوکرین کرتا ہے۔
زیلنسکی نے پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملاقات کے بعد یورپی صحافیوں کے ایک پینل سے بات کی۔ انہوں نے خاص طور پر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش میں ماسکو کے ساتھ مذاکرات میں امریکی کردار کا ذکر کیا۔
’’جنگی معیشت‘‘ : یورپ کی پرامن سوچ بدل رہی ہے کیا؟
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا امریکہ وہ طاقت دکھائے گا جس کا انہوں نے ذکر کیا، زیلنسکی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔
انہوں نے کہا، "خدا بھلا کرے وہ کریں گے۔”
یوکرینی صدر نے اس حقیقت پر اظہار تشکر کیا کہ زیادہ تر امریکی عوام یوکرین کی حمایت کرتے ہیں۔
زیلنسکی نے کہا، "ہمیں دو طرفہ حمایت حاصل ہے، اور میں اس کے لیے امریکہ کا شکر گزار ہوں۔”
زیلنسکی نے اسی کے ساتھ کہا کہ امریکہ "روسی بیانیہ کے زیر اثر ہے۔”
خیال رہے کہ ٹرمپ کے خصوصی مشیر اسٹیو وِٹکوف نے حال ہی میں کہا تھا کہ روس کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے یوکرین کے باشندے روسی حکمرانی کے تحت رہنا چاہتے ہیں، حالانکہ روس کے زیر قبضہ علاقوں میں ہونے والے ریفرنڈم کو بین الاقوامی سطح پر جائز تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
یوکرینی رہنما نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ وِٹکوف واقعتاً اکثر کریملن کے بیانات کا حوالہ دیتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وٹکوف کے بیانات "ہمیں امن کے قریب نہیں لاتے” اور "روس پر امریکی دباؤ کو کمزور کر دیں گے۔”
اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، زیلنسکی نے کہا کہ وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ نیٹو کییف کے لیے بہترین تحفظ کی ضمانت ہے اور یہ کہ فوجی اتحاد یوکرین کی فوج کے جنگی تجربے سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے ذریعے نیٹو کو تقویت ملے گی کیونکہ یورپ کے پاس ایسی فوج نہیں ہے جسے روس کے ساتھ جنگ کا تجربہ ہو۔ "مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اس اقدام کے لیے تیار نہیں ہے۔”
پیرس میں قیام کے دوران، زیلنسکی جمعرات کو 31 ممالک کے نمائندوں کے ساتھ سکیورٹی اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں۔ جس میں یوکرین کے لیے طویل مدتی سلامتی کی ضمانتوں اور پائیدار فوجی حمایت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک اب بھی ایک جامع جنگ بندی تک پہنچنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن روسی ایسا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ ” (روسی) نہ صرف جارح ہیں، بلکہ وہ اپنی پیشگی شرائط بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ان کا انداز ہے۔”
زیلنسکی نے سعودی عرب میں جنگ بندی مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کا پہلا ہدف 2022 میں روس کے مکمل حملے کے آغاز کے بعد سے روس کے ذریعے اغوا کیے گئے بچوں کی واپسی کو محفوظ بنانا تھا، جن کی تعداد یوکرینی حکام نے 20,000 بتائی ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ تبادلہ ہے، ہمارے بچوں کی واپسی ہے، جنہیں روسیوں نے چرالیا ہے۔”
ٕٕ