کالمزسید عاطف ندیم

ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے والے عرب نژاد امریکی سائنس دان……سید عاطف ندیم

عرب نژاد امریکیوں نے “امریکی تاریخ رقم کرنے میں مدد کی اور ہمیشہ  ملک کو لے کر آگے چلے

امریکہ میں رہنے والے 35 لاکھ سے زائد عرب نژاد امریکی اس امر کا ثبوت ہیں کہ امریکی تنوع کا شمار امریکہ کے سب سے بڑے اثاثوں میں ہوتا ہے۔

عرب نژاد امریکی، امریکہ کی جنگ آزادی کے وقت سے جنگوں میں لڑتے چلے آ رہے ہیں اور اُن کی جدت طرازیوں اور کاروباری نظامت کاری سے امریکہ کی ترقی میں مدد ملی ہے۔

عرب نژاد امریکیوں نے “امریکی تاریخ رقم کرنے میں مدد کی اور ہمیشہ  ملک کو لے کر آگے چلے۔ وہ اِس حقیقت کا عملی ثبوت ہیں کہ تنوع ملک کی سب سے بڑی طاقت چلا آ رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔”

عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گو کہ عرب نژاد امریکیوں میں ہر عرب ملک کے لوگ شامل ہیں تاہم اِن میں اکثریت مصری، عراقی، لبنانی، فلسطینی علاقوں کی اور شامی ورثے کی دعویدار ہے۔

شیئر امریکہ نے ذیل میں اُن پانچ عرب نژاد امریکیوں کی زندگیوں پر روشنی ڈالی ہے جن کی سائنس ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں انجام دی جانے والیں خدمات سے پوری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔


ہدٰی عقیل (© Jacquelyn Martin/AP)
ہدٰی عقیل (© Jacquelyn Martin/AP)

دمشق، شام میں پیدا ہونے والیں ہدٰی عقیل ایک دماغی سائنس دان ہیں۔ وہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہیں کہ درد، اضطراب اور افسردگی جیسے جذبات کی نیورو بایولوجی، صحت اور نشہ آور ادویات کے غلط استعمال کے خلاف جسمانی مزاحمت کو کیسے متاثر کرتی ہے۔

عقیل کہتی ہیں کہ جینیات، صدمے یا دیگر وجوہات سے جڑی مریض کی کمزوریوں کی جلد تشخیص متعلقہ بیماری کو روکنے میں ڈاکٹروں کی مدد کر سکتی ہے اور مزاجی جینیات کا بہتر فہم علاج میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ “درست قسم کی مدد اور علاج” سے نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے کمزور لوگ تندرست رہ سکتے ہیں۔

عقیل مشی گن یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ وہ جو تحقیقی کام کام کر رہی ہیں اُس میں جینیات، مالیکیولر بیالوجی اور دماغی امیجنگ کے شعبے بھی شامل ہیں۔ 2023 میں انہیں ‘نیشنل میڈل آف سائنس’ دیا گیا جو کہ سائنس کے شعبے میں امریکہ کا اعلٰی ترین ایوارڈ ہے۔


مائیکل دبیقی (© AP)
مائیکل دبیقی (© AP)

ڈاکٹر مائیکل دبیقی (1908-2008) امریکی ریاست لوزیانا میں شامی تارکین وطن کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ دل کی سرجری میں ایک انقلاب لے کر آئے۔ وہ دل کے پہلے سرجن تھے جنہوں نے دل کو خون پمپ کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک آلہ لگایا۔ انہوں نے 1953 میں دماغ کو خون پہنچانے والی شریان میں سے چربی صاف کرنے کے لیے سرجری کی۔ ‘کیراٹڈ اینڈارٹریکٹومی’ نامی یہ سرجری فالج کی روک تھام کے عمل میں ایک بہت بڑی پیشرفت ثابت ہوئی۔

اپنی سخت گیر سوچ کے بارے میں دبیقی نے ایک مرتبہ کہا کہ “علاج اور بالخصوص سرجری میں آپ کو جتنا زیادہ ممکمن ہو سکے کامل ہونا ہوتا ہے۔ اِس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔”


چاند کی تصویر کے آگے فاروق الباز (Courtesy of Farouk El-Baz)
فاروق الباز (Courtesy of Farouk El-Baz)

1967 سے 1972 تک اپالو خلائی پروگرام کے ایک سرکردہ ماہر ارضیات کی حیثیت سے مصری نژاد فاروق الباز نے ایسے تجزیے کیے جن کے نتیجے میں ناسا کو خلابازوں کو چاند پر اتارنے کے مقام کا تعین کرنے میں مدد ملی۔

اُس کے بعد سے وہ بوسٹن یونیورسٹی کے ‘ریموٹ سینسنگ’ کے مرکز کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مصر، عمان، صومالیہ، سوڈان اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی بنجر زمینوں میں زیر زمین پانی کے وسائل کو دریافت کرنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال کیا۔ اُن کے تحقیقی کام کی وجہ سے قدرتی آفات اور دیگر ہنگامی حالات کا سامنا کرنے کی بروقت تیاریاں کرنے میں مدد ملی ہے۔

الباز کہتے ہیں یہ سمجھنا انتہائی اطمینان بخش بات ہے کہ “خلا کے بارے میں ہمارے خیالات انسانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے وسائل کے بہترین استعمال کو [یقینی بنانے] میں مدد کر سکتے ہیں۔”


دینا قتابی (© MIT CSAIL)
دینا قتابی (© MIT CSAIL)

شام میں پیدا ہونے والی کمپیوٹر سائنس دان دینا قتابی طب کے شعبے میں تحقیق کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتی ہیں۔ 2013 میں انہیں میک آرتھر فیلوشپ سے نوازا گیا۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ‘وائرلیس نیٹ ورکس اور موبائل کمپیوٹنگ’ سنٹر کی ڈائریکٹر کے طور پر قتابی مریضوں کے سانس لینے کے طریقوں، دل کی دھڑکن کی رفتار، نیند کے معیار اور حرکات و سکنات کی نگرانی کے لیے مصنوعی ذہانت کے آلات تیار کرتی ہیں۔

مصنوعی ذہانت کے ذریعے اکٹھا کیا جا نے والے ڈیٹا سے پارکنسنز، الزائمر، کرونز، اور اے ایل ایس (امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس) نامی اعضا کی کمزوری جیسی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بہت کم دیکھنے میں آنے والی ریٹ سنڈروم نامی ذہنی اور جسمانی مرض میں مبتلا افراد کے علاج میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے زیرنگرانی افراد میں مذکورہ بیماریوں کی علامات کا ابتدا ہی میں پتہ لگایا جا سکتا ہے اور “معالجین کو بیماری کو شروع میں ہی روکنے کے لیے ہوشیار کیا جا سکتا اور شدید قسم کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔”


خورد بین کے سامنے بیٹھے جان معصب (© University of Michigan/Getty Images)
جان معصب (© University of Michigan/Getty Images)

شام میں پیدا ہونے والے جان معصب (1926–2014) نے وہ فلو ویکسین تیار کی جس کا ناک میں اسپرے کیا جا تا ہے۔ فلو کو روکنے کا یہ طریقہ ٹیکہ لگانے سے زیادہ موثر ثابت ہوا۔ صحت کی عالمی تنظیم کے مطابق انفلوئنزا ہر سال دنیا بھر میں 290,000 سے 650,000 افراد کی جان لے لیتا ہے۔

عالمی شہرت یافتہ وبائی امراض کے اِس ماہر کو ‘فلُو مِسٹ’ ویکسین تیار کرنے میں 40 برس لگے اور 2003 میں امریکہ میں اِس ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی۔ معصب نے ویکسین کی استعمال کی منظوری کے بعد روزنامہ نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ “ایک لحاظ سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کے خواب کی تعبیر پا لی ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی اِس ویکسین کی تیاری میں لگا دی۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button