
پاکستان کی بااثر خواتین
پاکستان کی بااثر اور حوصلہ مند خواتین بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور ان کے پاکستانی معاشرے کی ترقی و فلاح میں فعال کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بلقیس ایدھی
پاکستان کی حکومت سے تمغہ امتیاز حاصل کرنے والی یہ خاتون کئی دہائیوں سے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے ہمراہ لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مصروف عمل ہیں۔ بلقیس ایدھی نے اپنی پوری زندگی پاکستان کے نہایت پسماندہ، دکھی اور بے سہارا لوگوں کی خدمت میں صرف کر دی ہے۔

مریم مختیار
مریم مختیار ایک سندھی شیخ گھرانے میں پیدا ہوئیں اور وہ کرنل احمد مختیار کی بیٹی تھیں جو کراچی میں اپنے آبائی شہر کے طور پر آباد ہوئیں۔انہوں نے پنو اکیل میں مہران ماڈل اسکول اینڈ کالج اور کراچی کے ملیر کینٹ میں آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج (APSACS) سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انہوں نے نیشنل ویمن فٹ بال چیمپئن شپ میں بلوچستان یونائیٹڈ کے لیے فٹ بال کھیلی۔ انہوں نے چھ دیگر خواتین کے ساتھ 2014 میں پاکستان ایئر فورس (PAF) میں فائٹر پائلٹ کے طور پر کوالیفائی کرنے سے پہلے NED یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ خیراتی کاموں میں بھی شامل تھی، وہ بچوں کے لیے ایک اسکول کی مدد کرتی تھی جو تعلیم کے متحمل نہیں تھے۔
نفیس صادق
سن 1987 میں ڈاکٹر صادق اقوام متحدہ میں انڈر سکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ یہ دنیا کی پہلی خاتون تھیں، جو اقوام متحدہ میں اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئی تھیں۔ انہوں نے ماؤں اور بچوں کی صحت اور خصوصاﹰ فیملی پلاننگ کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی شمولیت پر زور ڈالا ہے۔

ثمنیہ بیگ
یہ نوجوان خاتون پاکستان کی پہلی خاتون ہیں، یہ کے ٹو، جسے دنیا کا کٹھن ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے، کو بھی سر کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ثمینہ دنیا کے سات بر اعظموں کی سات بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کر چکی ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انہوں نے عزم و ہمت کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔

شرمین عبید چنائے
شرمین عبید ایک فلم ساز ہیں۔ وہ معاشرتی مسائل پر کئی فلمیں بنا چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی دستاویزی فلموں کے ذریعے پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے اور عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل ایسے موضوعات پر بنائی گئی دو دستاویزی فلموں پر آسکر ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ان کی کاوشوں کی بدولت آج پاکستانی معاشرے میں ان مسائل کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور ملک میں ان کے حل کے لیے بحث اور قانون سازی کے عمل کا آغاز ہوا ہے۔

منیبہ مزاری
وہیل چیئر تک محدود یہ نوجوان خاتون ایک مصورہ، مقررہ اور گلوکارہ بھی ہیں۔ وہ بچوں اور معذور افراد کے حقوق سے متعلق سماجی منصوبوں پر کام بھی کرتی ہیں۔ ٹانگوں سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے کامیابیوں کو اپنا مقدر بنایا ہے۔
جہاں آرا
جہاں آرا پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن فار انفارمیشن ٹیکنالوجی( پاشا) کی صدر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سافٹ وئیر انڈسٹری کو بین الاقوامی رسائی دلوانے میں یہ اہم کردار ادا کر چکی ہیں۔ 29 سالہ تجربہ رکھنے والی یہ خاتون ایک انٹرپینوئیر، مقررہ اور سماجی کارکن ہیں۔ یہ معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کمیونٹیز کو خودمختار بنانے کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

فریحہ عزیز
فریحہ عزیز ان چند خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کھل کر ڈیجیٹل رائٹس کی بات کی ہے۔ وہ ’بولو بھی‘ ادارے کی ڈائریکٹر ہیں۔ پاکستان میں یو ٹیوب کی بحالی کے لیے انہوں نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے سائبر کرائم بل کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی ہے اور حکومت کو اس بل کی موجودہ شقوں کے ساتھ منظور کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
پاکستان میں ایسے چند ایک ہی شعبے ہوں گے، جہاں خواتین نظر نہیں آتیں۔ یہ ملک کے تمام بڑے شعبوں، فوج، صحت، تعلیم اور شوبز اور سیاست میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔
روشانے ظفر (سماجی کارکن)، ثنا میر (کرکٹر) ، فضا فرحان(سماجی کارکن)، ماہرہ خان(اداکارہ) ، سلطانہ صدیقی(ٹی وی چینل کی سربراہ )، عائشہ ممتاز (سرکاری ملازم )، مریم سلطانہ (پی ایچ ڈی ایسٹروفزکس) ، اور ان جیسی کئی خواتین اپنے اپنے شعبوں میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں اور یہ ثابت کر رہی ہیں کہ پاکستان کی خواتین کو اگر مواقع میسر ہوں تو وہ کامیابیوں اور نئی جہتوں کی اعلیٰ مثالیں قائم کر سکتی ہیں۔