
خطرے کی گھنٹی: بوشہر، اراک اور دیمونا — ایران اور اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر جو دنیا کو چرنوبل جیسی تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں
ایران کا واحد فعال سول جوہری ری ایکٹر، جسے روسی مدد سے مکمل کیا گیا
تجزیاتی ڈیسک وائس آف جرمنی
مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی جنگی کشیدگی نے نہ صرف خطے کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ بین الاقوامی ماہرین بھی سخت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ایران اور اسرائیل کے حساس ترین جوہری ری ایکٹرز کو کسی بھی حملے کا نشانہ بنایا گیا تو یہ چرنوبل (1986) اور فوکوشیما (2011) جیسی تباہ کن ایٹمی آفات کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
جوہری توانائی کے مصری ادارے کے سابق نائب سربراہ، ڈاکٹر علی عبدالنبی نے ایک اہم انٹرویو میں کہا ہے کہ بوشہر (ایران)، اراک (ایران)، اور دیمونا (اسرائیل) خطے کے سب سے حساس اور خطرناک جوہری تنصیبات ہیں۔ ان میں کسی بھی مقام پر حملہ "ایٹمی قیامت” کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
تین جوہری ری ایکٹرز، تین ممکنہ سانحات
1. بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ (ایران)
ایران کا واحد فعال سول جوہری ری ایکٹر، جسے روسی مدد سے مکمل کیا گیا۔
خلیج فارس کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اگر اس پر حملہ ہوتا ہے تو صرف ایران ہی نہیں، عرب ریاستیں، خلیجی پانی اور تیل کی رسد بھی تابکاری کے اثرات سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر علی عبدالنبی کے مطابق:
"بوشہر پر حملہ خلیج کے ساحلی علاقوں میں وسیع پیمانے پر تابکار بارش اور آلودگی پیدا کرے گا، جو دہائیوں تک قائم رہ سکتی ہے۔”
2. اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر (ایران)
ایک تحقیقاتی تنصیب جو "پلوٹونیم” پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگرچہ اس ری ایکٹر کو JCPOA معاہدے کے تحت غیر فعال یا ترمیم شدہ بنایا گیا تھا، مگر اس کی ساخت اور مواد کی وجہ سے اب بھی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
کسی بھی حملے کی صورت میں مرکزی ایران کے لاکھوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔
3. دیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر (اسرائیل)
نیگیو صحرا میں واقع، یہ اسرائیل کا خفیہ اور سب سے متنازع جوہری پروگرام ہے۔
عالمی برادری کا ماننا ہے کہ اسرائیل یہاں ایٹمی ہتھیاروں کے لیے مواد تیار کرتا ہے، حالانکہ اسرائیل نے کبھی کھل کر اس کی تصدیق نہیں کی۔
اگر یہ ری ایکٹر نشانہ بنا تو، جنوبی اسرائیل، اردن، اور حتیٰ کہ سعودی عرب تک تابکاری پھیلنے کا امکان ہے۔
"چرنوبل اور فوکوشیما سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے”
ڈاکٹر عبدالنبی نے اپنی گفتگو میں کہا:
’’دنیا چرنوبل میں ہونے والی تباہی کو اب تک نہیں بھولی۔ فوکوشیما نے یہ سکھایا کہ قدرتی آفات بھی خطرہ بن سکتی ہیں، مگر اگر جنگی کارروائی میں کوئی ایٹمی تنصیب نشانہ بنی تو وہ تباہی ناقابلِ تصور ہوگی۔‘‘
انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ موجودہ کشیدگی میں جوہری تنصیبات کو ’’نو اسٹرائیک زون‘‘ قرار دیں اور اقوامِ متحدہ ان مقامات کی حفاظت کے لیے فوری مداخلت کرے۔
اقوام متحدہ، IAEA اور عالمی برادری کی ذمہ داری
عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) اب تک حملوں کی براہِ راست مذمت سے گریزاں رہی ہے، تاہم ذرائع کے مطابق ادارہ بوشہر اور نطنز سمیت ایران کی دیگر تنصیبات کی نگرانی کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حالیہ بیان میں کہا:
’’ہمیں ہر صورت میں جوہری تنصیبات پر حملے سے گریز کرنا ہوگا۔ اس قسم کی جارحیت پوری انسانیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘‘
موجودہ صورت حال: خطرہ بڑھتا جا رہا ہے
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے بعد یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ کسی جوابی کارروائی میں ان تنصیبات کو جان بوجھ کر یا غلطی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی حکام پہلے ہی ایران کے جوہری پروگرام پر حملوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، جبکہ ایران نے بھی دیمونا کو ممکنہ ہدف قرار دیا ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ:
اگر تابکار مواد فضا میں پھیل گیا، تو ہزاروں افراد فوری موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لاکھوں افراد کو کینسر، جینیاتی نقصانات اور زہریلی آلودگی کے اثرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
خطے کا ماحولیاتی نظام برباد ہو سکتا ہے، جو نسلوں تک متاثر کرے گا۔
ایندھن کی جوہری تقسیم
انہوں نے کہا کہ اگر ری ایکٹر یا وہ تالاب جن میں یہ استعمال شدہ ایندھن رکھا گیا ہے، نشانہ بنے، تو یہ ایک بہت بڑی تباہی کا باعث بنے گا، جو چرنوبل یا جاپان کے فوکوشیما حادثے کی مانند ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں خطے کے ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، کیوں کہ وہ بوشہر کے قریب واقع ہیں۔ پانی بھی تابکاری سے آلودہ ہو جائے گا، جس کی وجہ سے بعض ممالک میں پانی صاف کرنے والے پلانٹ بند ہو جائیں گے، اور تجارتی جہاز رانی بھی رک جائے گی۔
مصری ماہر نے مزید کہا کہ ایران میں دوسرا ری ایکٹر جو نشانہ بننے کی صورت میں خطرے کا باعث بن سکتا ہے، وہ اراک ہے، کیوں کہ اس میں بھی شدید تابکار مادّے موجود ہیں، اور اس میں بھی ایندھن کی جوہری تقسیم ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں نئے تابکار مادّے پیدا ہو چکے ہیں۔ جہاں تک اصفہان کے ری ایکٹر کی بات ہے، جسے پہلے نشانہ بنایا جا چکا ہے، تو اس میں ایک کیمیائی ری ایکٹر موجود ہے جو یورینیم ڈائی آکسائیڈ کو یورینیم ہیگزافلورائیڈ میں تبدیل کرتا ہے، جو سینٹری فیوج مشینوں میں استعمال ہوتا ہے تاکہ یورینیم 235 کی شرح کو بڑھایا جا سکے۔ یہی اس کی خطرناکی ہے، کیوں کہ یہ ایران میں ایندھن کی افزودگی میں مدد دیتا ہے۔
ایران اسرائیل جنگ
قابل ذکر ہے کہ 13 جون سے اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں میں کئی فضائی حملے اور چھاپے مارے ہیں، جن میں فوجی مقامات، راکٹ لانچنگ پلیٹ فارم اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ علاوہ ازیں، اسرائیل نے درجنوں اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈروں اور کم از کم 10 جوہری سائنس دانوں کو قتل کیا ہے۔
جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں اور مزید کارروائیوں کی دھمکی دی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار براہِ راست فوجی جھڑپ ہے۔