
ترکی نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے روس، یوکرین اور امریکہ کے رہنماؤں پر مشتمل ایک مشترکہ اجلاس کی میزبانی کی پیش کش کی ہے، جمعے کے روز کی گئی اس پیشکش کو کریملن کی جانب سے فوری طور پر مسترد کر دیا گیا۔ انقرہ حکومت کی اس پیش کش کا مقصد یوکرین میں گزشتہ تین سال سے جاری روسی حملوں کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہے۔
روسی ایوان صدارت یا کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا کہ کسی بھی ممکنہ سربراہی اجلاس سے پہلے روس اور یوکرین کے درمیان براہِ راست مذاکرات میں پیش رفت ضروری ہے۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کییف میں یوکرینی وزیر خارجہ آندری سبیگا سے ملاقات کے بعد کہا، ”ہم مخلصانہ طور پر سمجھتے ہیں کہ استنبول میں ہونے والے پہلے اور دوسرے براہِ راست مذاکرات کے بعد مسٹر ٹرمپ، مسٹر پوٹن اور مسٹر زیلنسکی کی ملاقات ممکن ہے، جس کی سربراہی صدرایردوآن کریں۔‘‘

ترکی پہلے ہی پیر کے روز استنبول میں مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے روسی مذاکراتی ٹیم کی میزبانی کا اعلان کر چکا ہے، تاہم یوکرین نے تاحال مذاکرات کے اس دور میں شرکت کی تصدیق نہیں کی۔
یاد رہے کہ 16 مئی کو تین سال بعد پہلی مرتبہ استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان براہِ راست بات چیت ہوئی تھی، جس میں امن کے ممکنہ روڈ میپ پر دستاویزات کے تبادلے پر اتفاق ہوا۔ یوکرین نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیر کے مذاکرات سے قبل اپنے مطالبات پر مشتمل مسودہ پیش کرے، جبکہ روس کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے دن ہی اپنا مسودہ پیش کرے گا۔
ادھر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو روس۔یوکرین جنگ میں ثالثی کی کوششوں میں پیش پیش ہیں، دونوں فریقوں کی تاخیر پر مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ یوکرین گزشتہ دو ماہ سے ایک غیر مشروط 30 روزہ سیزفائر کا مطالبہ کر رہا ہے، جو ٹرمپ کی تجویز تھی، تاہم روس نے اس پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا مؤقف ہے کہ سیزفائر صرف مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہے، جو جنگ کے ”بنیادی اسباب‘‘ پر مرکوز ہوں۔
ماسکو کی ”بنیادی اسباب‘‘ سے مراد یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر پابندی، یوکرینی فوج کو محدود رکھنا، یوکرینی علاقوں پر روس کے قبضے کو تسلیم کرنا اور زیلنسکی حکومت کے خاتمے جیسے مطالبات ہیں، جنہیں کییف اور مغرب یکسر مسترد کر چکے ہیں۔

روس حملے کی وجہ سے مشرقی یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑے تنازعے کا سامنا ہے، جس میں اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر اور یوکرین کے وسیع علاقے تباہ ہو چکے ہیں۔ یوکرینی صدر وولادیمیر زیلنسکی نے جمعے کے روز سوشل میڈیا پر کہا، ”دباؤ میں نرمی یا پابندیاں ہٹانے کی باتیں ماسکو میں سیاسی فتح کے طور پر لی جاتی ہیں اور یہ مزید حملوں اور سفارتکاری کو نظر انداز کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘‘