
تاجکستان میں بجلی کی چوری پر دس سال سزائے قید کا قانون نافذ
تاجکستان میں توانائی کی پچانوے فیصد ضرورت پن بجلی سے پیدا شدہ توانائی کے ذریعے پوری کی جاتی ہے تاہم اس کے لیے درکار پانی کی کمی کی وجہ سے وہاں برسوں سے بجلی کی باقاعدہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
(وائس آف جرمنی):نئے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص بجلی کے میٹر کو روکنے یا بائی پاس کرنے کا مرتکب پایا گیا تو اسے 10 سال قید کی سزا ہو گی۔ یہ وسطی ایشیائی ریاست کئی سالوں سے پانی کی شدید قلت اور بجلی کے بحران کا شکار ہے۔
تاجکستان نے بجلی کے غیر قانونی استعمال پر دس سال قید کی سزا متعارف کرا دی ہے۔ اس وسطی ایشیائی ریاست میں حکام نے یہ قدم ملک میں پانی کی قلت کی وجہ سے کئی دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران کے شدت اختیار کر جانے کے بعد اٹھایا ہے۔
تاجکستان میں بجلی کی کھپت ہر سال تقریباً چھ ماہ تک محدود ہے، کیونکہ اس کا پرانا توانائی کا بنیادی ڈھانچہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ ملک کی توانائی اور آبی وسائل کی وزارت نے ہفتے کے روز ”بجلی کے استعمال سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ ذمہ داری‘‘ متعارف کرانے کے اقدامات کا اعلان کیا۔
وزیر انصاف رستم شمومرود نے اپریل کے اوائل میں کہا تھا کہ جو لوگ ادائیگیوں سے بچنے کے لیے میٹر ریڈنگ میں ردوبدل کرتے ہیں یا اسے نظرانداز کرتے ہیں، وہ ”ملک کے اقتصادی مفادات کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
تاجکستان میں توانائی کی پچانوے فیصد ضرورت پن بجلی سے پیدا شدہ توانائی کے ذریعے پوری کی جاتی ہے تاہم اس کے لیے درکار پانی کی کمی کی وجہ سے وہاں برسوں سے بجلی کی باقاعدہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔
صدر رحمانوف نے مارچ میں کہا تھا کہ انہیں ملک میں بجلی کے بے جا استعمال پر تشویش ہے۔ اس وسطی ایشیائی ملک میں اوسط ماہانہ تنخواہ 240 ڈالر سے بھی کم بنتی ہے۔ ملکی صدر بجلی کے بحران کے ممکنہ حل کے طور پر روگن ہائیڈرو پاور پلانٹ کے منصوبے کی تکمیل پر زور دے رہے ہیں۔
یہ منصوبہ 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے اور پھر تاجک خانہ جنگی کی دور میں ناکامی کا شکار ہو گیا تھا۔ صدر رحمان نے سن دو ہزار کی دہائی میں اس منصوبے کو بحال کیا گیا تاہم بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے یہ کئی مرتبہ تاخیر کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی تکمیل پر لاگت کا تازہ ترین تخمینہ چھ ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔