کالمزحیدر جاوید سید

جہل و تعصب یا کلامِ محبت ……حیدر جاوید سید

ہم بوسیدہ ہوگئے مگر آسمان پر ابھرتے ستارے بوسیدہ نہیں ہوتے ۔ ہمارے بعد گھر اور عمارتیں جوں کی توں کھڑی رہ جاتی ہیں

کاش ہم (انڈس ویلی کے زمین زادے ) کبھی یہ سمجھ پائیں کہ انسان کا ملاً آزاد و خود مختار ہے ، وہ علم سے استفادہ کرے یا جہل و تعصب کو اوڑھے نفرت کی تلوار سے گھاؤ لگاتا پھرے یا کلامِ محبت سے مرہم رکھے ۔ کاش ہم سمجھ پاتے کہ زمانے میں جینے کے ڈھنگ تج کر جیا تو جا سکتا ہے زندہ نہیں رہا جا سکتا ۔ زندگی محبت ، علم ، تقسیم ، برداشت اور نشاط ثانیہ سے عبار ت ہوتی ہے ۔
ارتقا ہی زندگی ہے ، افسوس یہ ہے کہ سمجھا نے والے دنیا سرائے سے ایک ایک کرکے پڑاؤ اٹھا تے جارہے ہیں دکھ سینوں میں چھپائے کہ بے ترتیب ہجوم نے نظم و نسق نہ سیکھا ۔
کبھی کبھی یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا ملاوٹ زدہ اشیاء برادہ ملی مرچیں بھاڑے کی دانش اور پیٹ سے بندھی عقل کا بیوپار کرنے والے اس کے ذمہ دار ہیں یا یہ ایک اجتماعی جرم ہے؟ صد افسوس کہ ہم سب شریک جرم ہیں اہل دانش بھی اور باقی کے طبقات بھی ۔ چُپ کا روزہ توڑنے کو کوئی آمادہ نہیں ۔ بے حسی ہے اجتماعی بے حسی ۔
ان سموں مجھے عربی کے بے مثل شاعر اور صحابی رسولؐ حضرت لبیدؓ یاد آرہے ہیں ۔ فرماتے ہیں ۔
”ہم بوسیدہ ہوگئے مگر آسمان پر ابھرتے ستارے بوسیدہ نہیں ہوتے ۔ ہمارے بعد گھر اور عمارتیں جوں کی توں کھڑی رہ جاتی ہیں ۔ زمانہ ایک نہ ایک دن ہر انسان کا داغ دکھا کر رہے گا ۔ اور انسان ہے ہی کیا ۔
بس ایک چمکتا ہوا شعلہ اور اصل کی روشنی ۔ تب و تاب دکھانے کے بعد بالآخر اُسے راکھ میں ڈھل جانا ہے” ۔
کبھی کبھی طالب علم سوچتا ہے ہمارے ہی پُرکھوں نے ابن رشد جیسے فلسفی کو ذلیل کیا یعقوب الکندی کو رسوا ، بو علی سینا کو دربدر ۔ آج خود ہم کہاں کھڑے ہیں اہل علم کی تذلیل کرتے ۔ دانش پر لٹھ بر ساتے فتوؤں سے جی بہلاتے ہیں ۔
حسین لوائی نے کہا تھا ۔ ”بھائیوں کا گوشت کھانے والوں کا پیٹ دوزخ سے بھی بڑا ہے”۔ شاہراہ حیات پر منہ اُٹھا ئے خواہشوں کے تعاقب میں سرپٹ دوڑتے اس ہجوم کو کون سمجھائے کہ یہ تنگ نظر اور کم فہم قسم کی مخلوق ہمارے سماج میں دند ناتی پھر رہی ہے انہی کے لئے ہی تو العبسی نے کہا تھا ۔
”اگر وہ گفتگوسے آشنا ہوتا تو میری طرح دردِ دل سے روتا ۔ اگر تاب سخن ہوتی تو میرا ہم سخن ہوتا ”۔
ہمارے عصر کا سچ یہ ہے کہ فطرت اور سماج سے کٹ کر اپنے جنون میں جلتے کڑھتے لوگ سمجھ ہی نہیں پار ہے کہ سفر حیات کے تمام ہونے پر ضیاع کا احساس بے فائدہ ہوگا ۔ عمربن کلثوم کے تین مصر عوں نے دستک دی ہے آپ بھی سن لیجئے ۔ عربی کے اس بلند پا یہ شاعر نے اپناٹھٹھہ (مذاق) اڑانے والوں سے کہا تھا ۔
” کینہ اگر پے بہ پے ہو جائے تو بھی آخر تم پرظاہر ہو کر رہتا ہے اور دبے ہوئے روگ کو برآمد کر دیتا ہے ۔ وقت ہے تعصبات سے بچ کر زندگی کی شاہراہ پر چلو۔ بیماری میں معالج سے رجوع کرتے ہیں ۔ گھڑ سواری کے میدان میں گدھے کی سواری ذلت کے سوا کچھ نہیں دیتی ”۔
کسی ایک شب فقیرراحموں نے کہا تھا ۔ ”حق بندگی ادا نہ کر پانے والوں کو احتساب کے دن سخت مراحل سے گزرنا ہوگا ”۔ سچ یہی ہے مگر ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ۔ مخلوق میں محبتیں تقسیم نہ کر سکنے والے خالق حقیقی کے حضور جواب دہی کیسے کر یں گے ۔
ساعت بھر کے لئے پھر سے تاریخ کے اوراق اُلٹ لیتے ہیں امراؤالقیس نے کہا تھا
” ہائے میرا افسوس اس گھڑی پر کہ جب بنو کامل نیزوں کی زد سے بچ نکلے ۔ وہ جو ذی وقار بادشاہوں کے قاتل تھے ۔ خدا کی قسم بزرگوں کا خون رائیگا ں نہیں جائے گا ”۔
ایک اور ورق اُلٹ کر دیکھتے ہیں رفیدبن حامل بن طالب کہتے ہیں ۔
” میں اپنے رب سے سانسوں پر اختیار چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ضرورت مند یہ بھی مانگے تو اس کا دامن بھر دوں” ۔
پر سوال وہی ہے ۔کیا ہم زمین زادے کبھی سمجھ پائیں گے کہ انسان کاملاً آزاد و خود مختار ہے ۔ وہ علم سے استفادہ کرے یا جہل و تعصب کو اوڑھ لے ؟
سوالوں سے آنکھیں چرانے اور بھاگنے کی ضرورت نہیں آٹھ دہائیوں سے دو برس ہی تو کم ہیں اور یہ بہت ہوتے ہیں افسوس سب اکارت ہوئے تجربوں کی بھینٹ چڑھے ۔ جبر و استحصال جوں کا توں ہے ۔
زمین زادوں کی اکثریت سسک سسک کر جی رہی ہے ۔ عدم توازن ہے ۔ انصاف بھی وسائل کی طرح طبقاتی ہے ۔ بالا دستوں کے بھاگ لگے ہوئے ہیں ۔ ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس طور ہم جی لئے کیا یہی زندگی تھی اور کیا ہماری آئندہ نسلوں کا مقدر یہی سب کچھ ہوگا ۔ اندھیرے کب چھٹیں گے ۔ تاج و تخت کب اچھالے جائیں گے ۔ سچی جمہوریت کا سویرا کب طلوع ہوگا ۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہم نے کعبہء دل میں لیڈروں کے لات ومنات رکھ چھوڑے ہیں انہیں پوجتے ہیں۔ ان کے لئے لڑتے بھڑتے ہیں ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے لیکن ہم ہیں کہ خود احتسابی سے گھن آتی ہے مگر سارے سماج کو پکا مومن دیکھنے کے آرزومند ہیں ۔
کڑوی حقیقت یہ کہ ا پنے اصل سے کٹنا بھی ایک طرح کی پسپائی ہے اور پسپائی کا پہلا قدم کبھی آخری نہیں ہوتا ۔
تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھ لیجئے ۔ کبھی نعشوں پر دستر خوان سجائے گئے اور کبھی کھوپڑیوں کے مینار بنے ۔ ایسا بھی ہو اکہ مخا لفوں کی نعشیں قبروں سے نکال کر جلائی گئیں اور راکھ ہواؤں میں اڑادی گئی ۔
یہ سلوک فقط مخالفوں کے ساتھ نہیں ہوا اس کی زد میں اہل دانش بھی آئے ۔
صاحبان علم کے ممدوح و محبوب حسین بن منصور حلاج کے ساتھ دجلہ کے مغربی کنارے والے میدان میں کیا بیتی ؟ ۔ سامت بھی سولی پر چڑھے ۔ سرمد کی گردن ماری گئی ۔ دارا شکوہ جیسا نابغہء عصر ، ہوسِ اقتدار کے ماروں کی دیو انگی کا رزق ہوا ۔
سمجھنے والوں کے لئے تاریخ میں بہت کچھ ہے اور خود ان کے عصرمیں بھی ۔ جو نہ سمجھنا چاہیں ان کے لئے تو بس دعائیں رہ جاتی ہیں ۔
ایک بار پھر عربی کے بلند پایہ شاعر اور صحابی رسول اکرمؐ حضرت لبیدؓ سے ملاقات کیجئے ۔ فرماتے ہیں
” وہ لوگ رخصت ہوئے جن کے قرب میں جینے کا لطف تھا ۔ میں اس گئی گزری کھیپ میں بچ رہا جو خارش زدہ اونٹ کی جلد کی مانند ہے کہ جو پاس آئے مبتلائے اذیت ہو ”۔
بات فقط اتنی ہے کہ جنونیت اور اندھی تقلید بھی خارش زدہ اونٹ کی طرح ہے اس بیماری کا شکار لوگوں نے کرہء ارض پر آفت اٹھا رکھی ہے ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button