پاکستانتازہ ترین

منرلز انویسٹمنٹ فورم کانفرنس،کیا پہلے بھی ایسی کوئی کانفرنس ہوئی؟

تین سو سے زائد مندوبین نے اس فورم میں شرکت کی، جن کا تعلق چین، امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور آذربائیجان سمیت مختلف ممالک سے تھا

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستانی حکومت کو توقع ہے کہ نئی منرل پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ سکیورٹی کی موجودہ صورتحال میں کیا اس منصوبے کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟
پاکستان کے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے منرلز انویسٹمنٹ فورم میں سول اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر شرکت کی۔ حکومت کو امید ہے کہ اس اقدام سے بیرونی سرمایہ کاری حاصل ہو گی اور ملک آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر پائے گا۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں منرلز انویسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے وسیع معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی، جن کی مالیت کھربوں ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اس دو روزہ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان وسائل کے بہتر استعمال سے پاکستان عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف پر انحصار کم کر سکے گا۔
تین سو سے زائد مندوبین نے اس فورم میں شرکت کی، جن کا تعلق چین، امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور آذربائیجان سمیت مختلف ممالک سے تھا۔ امریکی وفد میں محکمہ خارجہ، جیولوجیکل سروے اور ایکزِم بینک کے نمائندگان بھی شامل تھے جبکہ ڈنمارک، فن لینڈ، کینیا اور برطانیہ کی کمپنیاں بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئیں۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نے اس بات پر زور دیا کہ معدنیات کی صرف خام مال کی صورت میں برآمد کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی پراسیسنگ ملک میں کرنا ہو گی اور نیم تیار یا مکمل مصنوعات کی صورت میں برآمدات کو فروغ دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے عوام کے فائدے کے لیے کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور ہنر مندی کے فروغ کی اسکیمیں بھی شروع کی جا رہی ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ پاک فوج ایک مؤثر سکیورٹی فریم ورک فراہم کرے گی اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ملک کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے اعتماد کو فروغ دیا جا سکے۔
یہ ذکر کرنا اہم ہے کہ حالیہ دنوں وفاقی کابینہ کو دی گئی ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے پاس تقریباً آٹھ ہزار ارب ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ اس سے قبل یہ اندازہ چھ ہزار ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے معدنی وسائل کو سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک منرل کانفرنس کے انعقاد کا منصوبہ بنایا گیا۔
ایسی ہی ایک کانفرنس اگست دو ہزار تئیس میں بھی منعقد کی گئی تھی، جس کا مقصد ملک کی کان کنی اور معدنی صنعت کی صلاحیت کو اجاگر کرنا اور اسے بروئے کار لانا تھا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان مختلف اقسام کے پچاس سے زائد معدنی وسائل سے مالا مال ہے جن میں مٹی، تعمیراتی پتھر، صنعتی معدنیات، کوئلہ، دھاتوں والی معدنیات، جوہری معدنیات اور قیمتی پتھر شامل ہیں۔
معدنی شعبے کے اہم منصوبوں میں ریکوڈک کاپر اور سونا کان کنی کا منصوبہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جو توقع ہے کہ دو ہزار اٹھائیس تک فعال ہو جائے گا۔ تیل و گیس ترقیاتی ادارے کے تخمینے کے مطابق یہ منصوبہ سینتیس برسوں میں چوہتر ارب ڈالر کی آمدنی پیدا کرے گا۔
ارشاد علی کھوکھر، جو وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل منرلز کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور حالیہ منرل انویسٹمنٹ فورم میں بھی شامل رہے، کہتے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری و نجی شعبے میں ہزاروں بڑی اور چھوٹی کانیں فعال ہیں، جہاں کرومائیٹ، لوہے کی دھاتوں اور قیمتی پتھروں سمیت دیگر معدنیات نکالی جا رہی ہیں۔
کھوکھر کے مطابق، ’’پاکستان کے معدنی شعبے نے پہلے ہی تمام اقسام کی معدنیات کو کامیابی سے دریافت اور ترقی دی ہے، جن میں سونا اور تانبا بھی شامل ہیں، جو سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں کے ذریعے نکالے جا رہے ہیں۔ سیسہ، زنک، کرومائیٹ، راک سالٹ، لوہا، ماربل، گرینائیٹ، چونا پتھر اور قیمتی پتھر مختلف مقامات پر نکالے جا رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی معدنی وسائل کی تلاش اور ترقی کے لیے بعض مواقع پر بیرونِ ملک سے تکنیکی مدد، مشینری، آلات اور ماہرین کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی ہے۔
ارشاد کھوکھر کو توقع ہے کہ معدنی شعبے میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اربوں ڈالر پاکستان آ سکتے ہیں کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار مختلف منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان اب عالمی معدنی نقشے پر آ چکا ہے اور اپنی وسیع غیر دریافت شدہ معدنی صلاحیت اور بین الاقوامی مسابقتی مالیاتی و ضابطہ جاتی نظام کے باعث سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بن چکا ہے۔‘‘
ایسے وقت میں جبکہ حکومت نے معدنی وسائل کانفرنس سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہیں، کچھ حلقے صرف معدنیات پر قلیل مدتی فوائد کے لیے انحصار کرنے پر محتاط رہنے کی رائے رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر بھی کر دیں، تب بھی پاکستان کو اس کے ثمرات حاصل ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اب تک ریکوڈک اور سیندک جیسے بڑے منصوبوں سے کوئی نمایاں فائدہ حاصل نہیں کر سکا اور ان سے فائدہ حاصل ہونے میں بھی مزید وقت لگے گا۔
معروف ماہرِ معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسی کانفرنسیں ہو چکی ہیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی ٹھوس ترقی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ان کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں بنیادی ڈھانچے کی کمی اور سکیورٹی کے مسائل ہیں۔
قیصر بنگالی نے کہا، ”ہماری حکومتیں چالیس سال سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ کبھی کوئی لاٹری نکلے گی جو ملک کی تقدیر بدل دے گی۔ پہلے ہم امریکہ کی امداد پر انحصار کرتے تھے، اب جب وہ ختم ہو گئی ہے تو ہم نے اپنی امیدیں معدنیات سے باندھ لی ہیں۔‘‘
بنگالی نے مزید کہا کہ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے بعد کم از کم دس سال بعد ہی کوئی منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے بہت سا کام کرنا پڑے گا، جیسا کہ لاگت کا تخمینہ، سڑکوں کی تعمیر اور کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کرنا، جو انہیں پاکستان میں ہی ریفائننگ کا سامان نصب کرنے کا پابند بنائیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو صنعتی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے اور مقامی صنعت کو سہولیات فراہم کر کے تجارت و برآمدات کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ ایسے اقدامات کے نتائج دو سال کے اندر نظر آ سکتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے باعث کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانا آسان کام نہ ہو گا۔
تاہم ماہر معاشیات اشفاق حسن کے بقول اس سمٹ میں پاکستانی فوج کے سربراہ کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ اس حوالے سے سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لیا جا چکا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لیے سیکیورٹی کی فراہمی لازمی ہے۔ آرمی چیف نے سرمایہ کاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سرمایہ کار ان کے الفاظ اور حکومت کی اس حوالے سے یقین دہانی پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button