
جب نظام بدلے گا تو لوگوں کے چہرے کِھل اٹھیں گے…..ناصف اعوان
ہر حکومت نے عوام کا کم اپنا مفاد زیادہ عزیز جانا لہذا آج بجلی مہنگی ہے مگر حکومت نے اسے چھے سات روپے سستا کرکے لوگوں پر ایک احسان کیا ہے
حکومت چھوٹے چھوٹے ریلیف جو ہیں تو عارضی دے کر ‘ عوام کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ جو اس نے بجلی کی قیمتوں میں فی یو نٹ کمی کی ہے سے اُس نے یہ دیکھنا چاہا ہے کہ عوام اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں مگر شاید اسے معلوم نہیں ھو گا کہ وہ اب بھی اس سے ناخوش ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر ریلیف دیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ ستتر برس کے بعد تو بجلی مفت دی جانی چاہیے تھی پھر جب ہم جوہری طاقت ہیں تو اس سے بھر پور مستفید ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت نے عوام کا کم اپنا مفاد زیادہ عزیز جانا لہذا آج بجلی مہنگی ہے مگر حکومت نے اسے چھے سات روپے سستا کرکے لوگوں پر ایک احسان کیا ہے کیونکہ اگر حکومت یہ نہیں بھی کرتی تو انہوں نے اس کا کیا بگاڑ لینا تھا لہذا اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے مگر اب اس کا استعمال
کثرت سے نہ شروع کر دینا وگرنہ بل زیادہ آئے گا۔ کوشش کریں کہ وہ اپنے اپنے گھروں کے سامنے درخت لگائیں تاکہ گرمی کی شدت میں کمی آسکے۔ آج سے چالیس پنتالیس برس پہلے لوگ اتنے پریشان نہیں تھے جتنے بجلی میسر آنے پر ہیں اس کی ایک اہم وجہ گھروں کی طرز تعمیر ہے اب اس کا حل یہی ہے کہ آبادی کے تناسب سےبجلی کی پیداوار کو بڑھایا جائے مگر ایک پہلو یہ بھی پیش نظر رہے کہ ہمارا نظام برقیات زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتا لہذا توانائی کا بحران جنم لے رہا ہے اس کے باوجود اس کا کوئی حل حکومت ہی نے نکالنا ہے عوام نے نہیں ۔
بہر حال لوگوں کی ایک بڑی تعداد پریشان ہے شاد نہیں کیونکہ ان کی ماہانہ آمدنی محدود ہوتی جا رہی ہے مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکا کہ مہنگائی مافیا بڑا طاقتور ہے۔اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں دکاندار اپنی مرضی سے مقرر کرتے ہیں ۔عید کے دنوں میں تو ہر چیز کی قیمت دگنی ہو گئی ۔قصابوں نے بڑے چھوٹے گوشت کی قیمتوں میں دوسو تین سو روپےکا اضافہ کر دیا جو مگر جب انہوں نے عوام کی کھال کھینچ لی تو انتظامیہ حرکت میں آگئی اور ان کی دکانوں کو سیل کر دیا گیا اگر یہی کام پہلے کر دیا جاتا اور انہیں حوالات کی سیر کرا دی جاتی تو عوام کو ریلیف مل جاتا مگر ایسا نہیں ہوا اب جو جرمانہ کیا بھی ہو گا وہ معمولی ہو گا مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ قیمتیں اب مستحکم ہو چکی ہیں ۔ کوئی کیا کرے اور کِسے پُکارے ؟
سبزیاں پھل کسانوں سے اونے پونے داموں خریدے جاتے ہیں مگر بیچے مہنگے داموں جاتے ہیں گندم بھی اسی طرح خریدی جارہی ہے بتایا گیا ہے کہ پہلے مہنگی اس لئے تھی کہ سمگل ہوتی تھی چلئے یہ بات اچھی ہے کہ اب سمگلنگ رُک گئی ہے مگر کھادیں بیچ ذرعی ادویات اور بجلی بھی سستی ہونی چاہیں مگر اس طرف کسی کا دھیان نہیں لہذا عوام کی اجتماعی سوچ میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
غریب کے لئے تو زندہ رہنا دوبھر ہو چکا ہے اسے تو پوری غذا بھی دستیاب نہیں اور بیمار پڑنے پر مکمل دوا بھی میسر نہیں ۔سرکاری ہسپتالوں کی جو تھوڑی بہت سہولت اسے حاصل تھی اب اسے نجی ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے مگر مطلوبہ نتائج مشکل ہی سے برآمد ہو سکیں گے کیونکہ بد عنوانی کا زہر ہماری رگوں میں پوری طرح اُتر چکا ہے پھر ہمارے اوپر قرضہ ہی اتنا چڑھ چکا ہے کہ کچھ نہ پوچھیے ایک خبر کے مطابق ملکی و غیر ملکی قرضہ پچھتر ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اس صورت میں خوشحالی کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ اسے تو اتارنے کے لئے قومی اثاثے فروخت کرنا پڑیں گے مگر پھر بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ ملک خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو جائے گا کیونکہ جب تک بد عنوانی ہیرا پھیرا ٹھیکیداری اور کمیشن خوری موجود ہیں زر و جواہر کے ڈھیر بھی ہمارا مستقبل روشن نہیں کر سکتے ۔ایک خلوص نیت ہی ہے جس سے ہمارے جیون میں بہار آسکتی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اہل اختیارخود کو بدلیں وگرنہ عوام حالت موجود کو تبدیل کر دیں گے کیونکہ وہ بے شک کسی بڑے بدلاؤ کے لئے کوئی مظاہرہ نہیں کر رہے مگر وہ بیدار ہو چکے ہیں لہذا کتنی ہی کیوں نہ حکمت عملیاں اختیار کی جائیں وقت کا سفر ایک نئی سمت کا آغاز کر چکا ہے جسے روکنے کے لئے روایتی فکر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے مگر عوامی فیصلہ ہو چکا کہ اب اسے ایسے نہیں جینالہذا اہل سیاست و اقتدار کو خوش فہمیوں کے حصار سے باہر نکل کر دیکھنا چاہیے ۔ دنیا بھر کی سیاست و حکمرانی کا انداز تبدیل ہو رہا ہے امریکا ہی کو لے لیجئے ۔صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آکر ثابت کر دیا ہے کہ اب پرانی سیاست کا دور ختم ہو رہا ہے ۔ عوام کسی بھی ملک کے ہوں شعوری لہر کی لپیٹ میں ہیں وہ اپنے بنیادی حقوق کا تقاضا کر رہے ہیں ۔کسمپرسی کی زندگی وہ بسر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طبقہ دولت کے انبار لگاتا چلا جا رہا ہے جس سے وہ زندگی کے تمام لوازمات سے لطف اندوز ہو رہا ہے لہذا انہیں چالاکیاں ہوشیاریاں دکھا کر مطمئن نہیں کیا جا سکتا یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کا اعلان کیا ہے اس حوالے ہی سے انہوں نے کئی ممالک پر ٹیرف لگانے کا پروگرام بنایا ہے تاکہ ان کے ملک کی مصنوعات کو فروغ ملے اور مقامی صنعتوں کا پہیہ تیزی سے گھومے اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے علاوہ ازیں ان کے ٹیرف کے سیاسی مقاصد بھی ہیں مگرچین نے اُن کی اس ”کارروائی“ کو مشکل بنا دیا ہے لیکن وہ (صدر ٹرمپ) اپنے عوام کو یہ تاثر دینے میں کا میاب ہو گئے ہیں کہ وہ ان سے مخلص ہیں ۔
بہر کیف ہمارے ارباب بست و کشاد کو بھی ایسا کوئی تاثر دینا چاہیے تاکہ وہ انہیں اپنے دل میں جگہ دے سکیں بصورت دیگر وہ جہاں پہلے موجود تھے وہیں پے ہی کھڑےدکھائی دیں گے اور جمہوریت پسند ملکوں کی حکومتیں ان کے ساتھ ہمدردی کے جزبات کا باقاعدہ اظہار کریں گی کر بھی رہی ہیں عین ممکن ہے آنے والے دنوں میں سیاسی منظر نامہ بدل بھی جائے کیونکہ اب جہاں کمرشل ازم کو ترجیح دی جارہی ہے تو وہاں انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی مقدم سمجھا جا رہا ہے لہذا اہل اقتدار اس سے والہانہ لگاؤ کی روش کو ترک کرکے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن جائیں ۔