
تاج حیدر ’’ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے ‘‘——–حیدر جاوید سید
سوشلسٹ خیالات کے حامل نوجوان کی اولین سیاسی محبت پاکستان پیپلزپارٹی تھی اور وہ آخری سانس تک پی پی پی میں رہے
تاج حیدر کا سفرحیات تمام ہوا وہ دنیا سرائے میں لگ بھگ 83برس رہے بسے جیئے، علمی اور فکری طورپر جان لیوا حبس کا شکار سماج کا ایک روشن فکر دانا رخصت ہوا۔ تاج حیدر ادیب تھے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے متعدد ڈرامے لکھے۔
روشن خیال ترقی پسند تھے۔
سیاسی عمل میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے فعال ہوئے زمانے کی سختیوں اور ریاستی جبر کے باوجود اپنی جماعت کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ سینیٹر تاج حیدر پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل تھے۔ قبل ازیں پیپلزپارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر بھی فائز رہے۔ پارٹی کے ٹکٹ پر دو بار ایوان بالا سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
تاج حیدر، نابغہ عصر پروفیسر کرار حسین کے صاحبزادے تھے۔ کراچی یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم ایس سی کرنے والے تاج حیدر 8 مارچ 1942ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے کوکوٹہ راجھستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان 1947ء کے بٹوارے کے ایک برس بعد 1948ء میں پاکستان کے دارالحکومت (اس وقت )کراچی منتقل ہوا
پروفیسر کرار حسین ایک روشن فکر صاحب علم و مطالعہ استاد اور دانشور تھے۔ پروفیسر کرار حسین کا فرزند ہونا بذات خود ایک قابل فخر تعارف ہے لیکن تاج حیدر ’’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘‘ کے مصداق تھے۔
سوشلسٹ خیالات کے حامل نوجوان کی اولین سیاسی محبت پاکستان پیپلزپارٹی تھی اور وہ آخری سانس تک پی پی پی میں رہے۔ پی ٹی وی کے لئے لکھی اپنی ہی ایک ڈرامہ سیریل ’’آبلہ پا‘‘ میں انہوں نے پروفیسر آڑی والا کا کردار اس طور نبھایا کہ برسوں یہی کردار ان کی شناخت رہا۔
2006ء میں انہیں 13واں پی ٹی وی ایوارڈ برائے مصنف بہترین ڈرامہ سریل ملا۔ 2012ء میں ستارہ امتیاز برائے سائنسی خدمات دیا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانیوں میں شامل تاج حیدر روشن فکر سادہ اطوار اور مکالمے کے رسیا تھے انہوں نے خود کو طمع اور جمع کی خواہشوں سے محفوظ رکھا ان کی سیاسی جدوجہد اور علمی خدمات کا اعتراف نہ کرنا بخیلی ہوگا۔
اپنے سفر حیات کے ایک مرحلے پر انہوں نے خود کو تصنیف و تالیف کے لئے وقف کیا مگر وہ کچھ عرصہ بعد پھر سے سیاسی عمل میں لوٹ آئے۔ پاکستان میں عوامی جمہوریت کے قیام کے لئے ان کی جدوجہد سیاسی تاریخ کا روشن باب ہے۔
ایک ایسے سماج میں ان کا وجود غنیمت تھا جس میں ریاست کی سرپرستی میں نفسانفسی، تعصبات اور شدت پسندی کے ساتھ غیرریاستی عسکریت پسندی کے بیج بوئے گئے۔ اپنی روشن فہم کا دھیمے اور سادہ انداز میں اظہار کرنے والے ہمارے ہاں اب انگلیوں پر بھی شمار کریں تو لوگ کم اور انگلیوں کی پوریں زیادہ ہیں۔
ان کے خیال میں ریاست اور اہل پاکستان دونوں کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے انسان دوستی مساوات انصاف اور علم ضروری ہیں۔
صحافت کے اس طالب علم کو سال 1990ء میں لاہور سے شائع ہونے و الے ایک سیاسی جریدے کے لئے ان کا انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ سطور لکھتے وقت ریگل چوک کے قریب واقع ایک عمارت میں قائم بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم کے دفتر میں ہوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کی وہ ملاقات یاد آرہی ہے۔
بعض تلخ سوالوں کے جواب انہوں نے جس شائستگی سے دیئے یہ ان کا ہی خاصا تھا۔ ان کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس سوال پر خصوصاً گلے پڑجاتا کہ
’’ایسا کیوں ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کرنے والے نئے سماج میں رچنے بسنے کی بجائے خود کو تہذیب و ثقافت کا دیوتا بناکر ہی پیش نہیں کرتے بلکہ اقتدار اور نظام پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے بھی ہر ہتھکنڈہ آزماتے ہیں؟‘‘
طالب علم کو ایک دو مزید تند سوال بھی یاد آرہے ہیں مگر کیا مجال کہ ان کے چہرے پر کوئی شکن ابھری ہو یا لہجے میں کڑواہٹ اتری ہو۔
اس سوال پر کہ 1988ء کا اقتدار ریاست سے سمجھوتے کے تحت ملا سمجھوتے کی اس سیاست نے پیپلزپارٹی کو کیا دیا ماسوائے اس کے کہ ریاست نے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور کرپشن کے الزامات لگاکر ایوان اقتدار سے باہر پھینک دیا؟
ان کا کہنا تھا کہ
’’سیاسی جماعت نے ریاست سے بندوق اٹھاکر لڑنا نہیں ہوتا بلکہ بدترین حالات میں اپنے حامیوں اور عوام کو محفوظ انداز میں آگے لے جانا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی یہی کیا‘‘۔
ان سے یاد اللہ کراچی میں قیام کے برسوں سے تھی۔ جس عرصے میں، میں ہفتہ روزہ ’’جدوجہد‘‘ کراچی میں ادارتی فرائض ادا کررہا تھا اسی عرصے میں ان سے متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں۔ لاہور میں بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کے دفتر میں ان سے لگ بھگ ایک دہائی بعد ملاقات ہوئی۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کی یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ گزشتہ شب ان کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی تو یادوں نے دستک دی۔ مجھے یاد آیا کہ تاج حیدر تقریباً ہر ہفتہ کی سپہر جہانگیر پارک صدر کراچی میں واقع پبلک لائبریری کے باہر والے لان میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور نوعمر و نوجوان طلباء کے ساتھ ایک بھرپور نشست کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
اس ہفتہ وار نشست میں کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے بعض دوستوں ڈاکٹر اعزاز نذیر، کامریڈ محمد نواز بٹ و دیگر کی شرکت اور گرم جوشی سے مختلف موضوعات پر بحث ہمیشہ یادگار رہتی۔
ان دنوں پی پی پی اور کالعدم نیپ والے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے لیکن جہانگیر پارک میں واقع پبلک لائبریری کے باہر والے لان میں یہ جانی دشمن نہ صرف اپنی اپنی جماعت کی غلطیوں پر کھل کر گفتگو کرتے بلکہ اصلاح احوال کے لئے جاندار مکالمہ بھی کرتے تھے۔
جہانگیر پارک اور غالب لائبریری کے علاوہ ان دنوں اتوار کے روز شوکت صدیقی صاحب کے لان میں بھی محفل جما کرتی تھی کیا دن تھے کسی خوف اور توہین کی تلوار کے گردن پر پڑنے کے ڈر کے بغیر دنیا جہان کے موضوعات پر گھنٹوں مکالمہ ہوتا تھا۔
ان مجلسوں سے ہم ایسے طلبا نے خوب دامن بھرے۔ ان مجلسوں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ سوال کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ سوال کرنے والے کو کوئی نخوت سے یہ نہیں کہتا تھا
’’ارے میاں ابھی بچے ہو تم کیا جانو گے، یا یہ کہ ابھی تک صرف سنا کرو‘‘۔
ان دونوں باتوں کی بجائے سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ لگ بھگ گیارہ برس بعد جب ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے انٹرویو سے ہٹ کر چند سوالات کا جواب بھی بڑی شفقت سے دیا لیکن اس کے ساتھ کہنے لگے
” صاحبزادے وقت تبدیل ہوگیا ہے اب ہمارے سماج میں بلند پروازی شدت پسندی کے تیروں کے رحم و کرم پر ہے، جس صاف ستھرے ماحول میں ہماری نسل پروان چڑھی اس کا ذکر اب کتابوں میں ملے گا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے سماجی ڈھانچہ ہی تباہ کردیا ہے۔ مجھے تعمیر نو کا آغاز ہوتا دور دور تک دیکھائی نہیں دے رہا‘‘۔
یاد پڑتا ہے میں نے عرض کیا، آپ بھی مایوس ہیں؟
رسان سے بولے
’’مایوس نہیں ہوں البتہ اس بات کا دکھ بہت گہرا ہے کہ عمومی سماجی رویوں میں انسانت کی جگہ مذہبی شدت پسندی نے لے لی ہے‘‘۔
ان کے سانحہ ارتحال کی خبر نے جی میں دکھ بھردیا۔ فکری طور پر بانجھ ہوئے سماج کے اپنے ہی دکھ ہیں ایسے میں اگر کوئی روشن فکر علم و انسانیت دوست شخص اٹھ جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔
تاج حیدر کا سانحہ ارتحال بھی ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان کی سیاسی شناخت پیپلزپارٹی تھی لیکن ہم ایسے طالب علم جس تاج حیدر سے شناسا تھے وہ صرف جیالا نہیں تھا ایک اُجلا ترقی پسند انسان دوست علم پرور، مکالمے پر یقینِ کامل رکھنے والا انسان، ان سب سے بڑھ کر انصاف، مساوات اور عوامی جمہوریت کا پرچارک تھا۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے اس مرد آزاد کی۔ تاج حیدر کا سفر حیات تمام ہوا ایک روشن فکر انسان ہمارے درمیان سے اٹھ گیا فکری طور پر بانجھ ہوتے سماج پر مسلط حبس میں کچھ اور اضافہ ہوگیا ہے۔