
میدویدیف کا صدر ٹرمپ پر طنز: ’’امن کا نوبل انعام بھول جاؤ‘‘ — روس کا امریکہ پر سخت ردعمل، ایرانی وزیر خارجہ ماسکو روانہ
امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسے دلدل میں داخل ہو چکا ہے جہاں زمینی فوجی کارروائیوں کا خدشہ روز بروز بڑھ رہا ہے
ماسکو: ایران پر امریکی فضائی حملوں اور اس کے بعد اسرائیل پر ایرانی میزائل حملوں کے تناظر میں روس کے سابق صدر اور بااثر رہنما دمتری میدویدیف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میدویدیف نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا نوبل امن انعام اب ایک خواب ہی رہے گا، چاہے وہ اسے حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔
"امن کے صدر” سے جنگی صدر تک
میدویدیف، جو کہ روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ ہیں، نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں لکھا:’’ٹرمپ کو کبھی ‘امن کا صدر’ سمجھا جاتا تھا۔ اب انہوں نے امریکہ کو ایک اور خونریز جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ نوبل انعام؟ وہ خواب اب بھول جائیں – چاہے کتنی ہی دھاندلی کیوں نہ کی جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسے دلدل میں داخل ہو چکا ہے جہاں زمینی فوجی کارروائیوں کا خدشہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔
روسی رہنما نے ایران کے جوابی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اب اسرائیل پر حملے ہو رہے ہیں، شہر دھماکوں سے لرز رہے ہیں، اور عوام شدید خوف کا شکار ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی نے پورے مشرق وسطیٰ کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘
میدویدیف کے بیانات روس کی جانب سے امریکہ پر سفارتی اور اخلاقی دباؤ بڑھانے کی ایک تازہ کوشش سمجھے جا رہے ہیں۔
ایران-روس قربت: ایرانی وزیر خارجہ کی ہنگامی ملاقات
اس تناظر میں ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیر کے روز ماسکو روانہ ہوں گے، جہاں وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا:
’’ہم موجودہ صورتِ حال پر سنجیدہ اور اسٹریٹجک سطح پر گفتگو کریں گے۔ روس خطے کا اہم اتحادی ہے، اور ہمیں اس وقت اپنے دوستوں کی دانشمندانہ رہنمائی درکار ہے۔‘‘
ایرانی میڈیا کے مطابق، یہ ملاقات ایرانی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں روس کی حمایت حاصل کرنا اہم ترجیح قرار دی گئی ہے۔
روس کی امریکی پالیسی پر تنقید
کریملن کے قریبی ذرائع کے مطابق، روسی قیادت امریکہ کے حالیہ اقدامات کو ’’خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ‘‘ سمجھتی ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ پہلے ہی بیان دے چکی ہے کہ:’’امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس وقت ترجیح جنگی بیانات کے بجائے سفارت کاری ہونی چاہیے۔‘‘
عالمی سطح پر گہری تقسیم
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ان حملوں کو دفاعی اور ضروری قرار دے رہے ہیں، جب کہ روس، چین، ترکی اور کئی دیگر ممالک انہیں ’’جارحیت‘‘ اور ’’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘‘ سمجھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں روس خطے میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر ایرانی مفادات کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو۔
نوبل انعام کا سیاسی پہلو
صدر ٹرمپ ماضی میں نوبل امن انعام حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں، خاص طور پر شمالی کوریا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد۔ تاہم، میدویدیف کے حالیہ بیانات نے ٹرمپ کی اس امید کو شدید زک پہنچائی ہے۔
خطے میں خطرناک غیر یقینی صورتِ حال
مشرق وسطیٰ اس وقت مکمل کشیدگی کی کیفیت میں ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اسرائیل ہیں، دوسری طرف ایران اور اس کے حامی، اور اب روس کی بڑھتی ہوئی مداخلت نے اس تنازع کو ایک بین الاقوامی بحران کی شکل دے دی ہے۔