مشرق وسطیٰ

بھارتی ‘مسلمان پنکچر لگاتے ہیں‘: مودی کے بیان پر کڑی تنقید

بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت غربت کا شکار ہے اور اکثر تعلیم سے محروم ہونے کی وجہ سے مذہبی اقلیتی مسلمان کافی کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور

(صلاح الدین زین-نیو دہلی): کئی سیاسی رہنماؤں نے وزیر اعظم مودی کے اس بیان پر سخت تنقید کی ہے کہ ’’مسلمان روزی روٹی کے لیے پنکچر‘‘ لگاتے ہیں۔ ان رہنماؤں کے بقول اگر وسائل ملکی مفاد میں استعمال ہوتے، تو بچپن میں مودی کو بھی ’’چائے نہ بیچنا پڑتی۔‘‘

ہندو قوم پسند جماعت بی جے پی کی حکومت کی قیادت کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز اپنے ایک خطاب کے دوران نئے لیکن متنازعہ وقف ترمیمی قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا، ”اگر وقف املاک کا ایمانداری سے استعمال کیا جاتا، تو مسلم نوجوانوں کو سائیکلوں کے پنکچر لگا کر اور ان کی مرمت کر کے روزی روٹی کمانے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘

بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت غربت کا شکار ہے اور اکثر تعلیم سے محروم ہونے کی وجہ سے مذہبی اقلیتی مسلمان کافی کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو قوم پسند سوشل میڈيا پر مسلمانوں کی تحقیر کی خاطر اور انہیں سوشل میڈيا پر ٹرول کرنے کے لیے عموماً ”پنکچر لگانے والے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے بھی مسلمانوں کے لیے یہی جملہ اور لہجہ استعمال کیا، جس کی وجہ سے مختلف حلقوں کی جانب سے ان پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا کہ اگر ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مربی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس نے ”وسائل کو ملک کے مفاد کے لیے استعمال کیا ہوتا، تو شاید بچپن میں وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی چائے بیچنے کی ضرورت نہ پڑتی۔‘‘

واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کے تربیت یافتہ پرچارک ہیں اور وہ اکثر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اپنے بچپن میں وہ ریلوے اسٹیشن پر چائے فروخت کر کے اپنے والد کی مدد کیا کرتے تھے۔

اویسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں سوال کیا کہ آخر وزیر اعظم مودی نے اپنی گیارہ سالہ حکومت کے دوران ”غریب ہندوؤں یا مسلمانوں کے لیے کیا کیا ہے؟  وقف املاک کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وقف قوانین ہمیشہ کمزور تھے۔ البتہ مودی کی وقف ترامیم نے انہیں مزید کمزور کر دیا ہے۔‘‘

کانگریسی رہنما اور رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے وزیر اعظم مودی کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی زبان تو سوشل ميڈیا پر استعمال ہوتی ہے کہ ”مسلمان پنکچر لگاتے ہیں۔‘‘ تاہم عمران پرتاپ گڑھی کے بقول، ”وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کی بات کریں۔‘‘

انہوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا، ”آپ نے ملک کے نوجوانوں کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ملازمتیں تو ہیں نہیں، اور اب دستیاب آپشنز پنکچر لگانا یا پکوڑے بیچنا ہی ہیں۔ مسلمان صرف پنکچر نہیں لگاتے۔ میں ایک بہت طویل فہرست بنا سکتا ہوں کہ مسلمانوں نے کیا کیا کچھ بنایا ہے۔ لیکن یہ اس کا وقت نہیں ہے۔‘‘

عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ بی جے پی کانگریس کو مسلمانوں کا ہمدرد کہتی ہے، تو کیا ”آپ کو ان سے (مسلمانوں سے) نفرت ہے؟ اگر نہیں، تو آپ نے مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین، ایم جے اکبر اور ظفر اسلام جیسے مسلم رہنماؤں کو کوڑے دان میں کیوں پھینک دیا؟‘‘

واضح رہے کہ ان تمام مسلم سیاسی رہنماؤں کا تعلق بی جے پی سے ہے، تاہم کافی عرصے سے یہ سیاسی رہنما منظر عام پر نہیں اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی بھی ان کا کسی بھی حوالے سے کوئی تذکرہ تک نہیں کرتی۔

بھارتی مسلمان
بھارت میں انسانی حقوق کے کے ادارے کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران، جب سے مودی حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں پر حملے تیز ہونے کے ساتھ ہی ان کی سماجی حالت مزید خستہ ہوتی جا رہی ہے

عمران پرتاپ گڑھی نے نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہا، ”آپ کہتے ہیں کہ وقف بل کے ذریعے آپ مسلمانوں کا بھلا کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کے پاس تو ایک بھی مسلم رکن نہیں ہے، جو اسے پارلیمان میں پیش کرتا ۔ ۔ ۔ آپ کے پاس تو پارلیمان یا ریاستی اسمبلی میں بھی کوئی ایک بھی مسلم مرد یا خاتون رکن تک نہیں ہے۔‘‘

مودی نے کیا کہا تھا؟

پیر کے روز ہریانہ کے حصار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اگر وقف املاک کو ”ایمانداری سے‘‘ استعمال کیا جائے، تو ”نوجوان مسلمانوں کو روزی روٹی کے لیے پنکچر لگانے‘‘ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا، ”تاہم وقف کی جائیدادوں سے صرف چند لینڈ مافیا گروپوں نے ہی فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ مافیا گروہ دلت، پسماندہ طبقات اور بیواؤں کی زمینوں کو لوٹ رہے تھے اور ترمیم شدہ وقف قانون ان مسائل کو حل کرے گا۔‘‘

مودی نے کانگریس پر خوشامد کی سیاست کا الزام لگایا اور کہا کہ اس طرز عمل سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا، ”کانگریس نے صرف چند بنیاد پرستوں کو خوش کیا ہے۔ باقی معاشرہ ان پڑھ اور غریب ہے اور اس غلط نقطہ نظر کا سب سے بڑا ثبوت وقف قانون میں ہے۔‘‘

وقف ترمیمی بل کو اس ماہ کے شروع میں بھارتی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، جس کی تمام مسلمان تنظیمیں یہ کہہ کر مخالفت کر رہی ہیں کہ اس بل سے مسلمانوں کی مساجد، ان کے قبرستان، درگاہیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور اب حکومت ایسی املاک کو اپنے پسندیدہ صنعت کاروں کو سونپ دے گی۔

کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس قانون کی یہ کہہ کر سختی سے مخالفت کی تھی کہ ہندو قوم پسند جماعت بی جے پی مسلم اقلیت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ تاہم ایوان میں اکثریت کی بنیاد پر بی جے پی نے یہ قانون منظور کرا لیا۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ یہ ایکٹ وقف قانون میں اصلاح کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button