کالمزحیدر جاوید سید

آلو، بالو، خواتین و حضرات! سب ’’اچھا‘‘ ہے……حیدر جاوید سید

یہ سطور لکھتے ہوئے چار سوا چار دہائیاں قبل کی یادوں نے دستک دی۔ کیا زمانہ تھا والدین بہن بھائی دوست سبھی ریاست سے ٹکراجانے پر جنم لینے والے بدترین حالات میں ڈٹ کر ساتھ دیتے تھے۔

ان سموں جی چاہ رہا ہے کسی سرائیکی گلوکار سے سئیں رفعت عباس کا یہ کلام سنا جائے
’’اماں ڑی جرنیل نہ جانویں نِت مریندا ساکوں، کہیں گلی نہ کھیڈن ڈیندا، وٹ کروڑا کھڑدا، جیڑھی گال تے سبھ راضی ہن آن اتھائیں اڑدا ‘‘۔
پھر مجھے یاد آیا کہ سفر حیات کےساڑھے چھیاسٹھ برس تقریباً مکمل ہوگئے ہیں۔ دل کے عارضے کے ساتھ ایک دو ” امیروں ” والی مزید بیماریاں بھی جسم میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ صرف ہم ہی نہیں نصف بہتر (اہلیہ) بھی شدید علیل ہیں۔ بوڑھی بیمار ہڈیاں اب تحقیقاتی مراکز اور جیلوں کی سختیاں برداشت نہیں کرسکیں گی۔
خاکم بدہن اگر دھرلیا جائوں تو بیمار ا ہلیہ جو نئی نئی عارضہ قلب کی مریضہ ہوئی ہیں ان پر اچھی نہیں گزرے گی۔ جانِ پدر (بیٹی) بھی امریکہ میں پڑھ رہی ہے۔ ہم دو عدد بوڑھوں میں سے ایک خصوصاً میری وجہ سے خاندان کے لئے کچھ مسائل پیدا ہوئے تو معاملات سنبھالے نہیں جاسکیں گے۔
یہ سطور لکھتے ہوئے چار سوا چار دہائیاں قبل کی یادوں نے دستک دی۔ کیا زمانہ تھا والدین بہن بھائی دوست سبھی ریاست سے ٹکراجانے پر جنم لینے والے بدترین حالات میں ڈٹ کر ساتھ دیتے تھے۔
ابا جماعت اسلامی میں تھے ہم ہزار زاویہ الٹ نظریات اوڑھے رجعت پسندی کے شدید مخالف لیکن پھر جب تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں ہم دھرلئے گئے تو والد بزرگوار ساری ناراضگیوں، شکوئوں اور شکایات (یہ ہم سے تھے) کے باوجود ڈٹ کر ہمارے لئے کھڑے ہوئے عدالتوں، فوجی دفاتر اور ان سے آگے جہاں تک رسائی ممکن ہوئی انہوں نے بیٹے کا مقدمہ لڑا خیر ان معاملات و مسائل کی تفصیل پھر کبھی سہی۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ آج ابا ہیں نہ امڑی حضور، بھیا ابو بھی پچھلے برس دنیا سرائے سے پڑائو اٹھاگئے۔ اس لئے ’’اِک چپ تے سو سکھ‘‘
بات شروع ہوئی تھی سئیں رفعت عباس کی نظم سے۔ اس نثری نظم کی چند ابتدائی سطور کالم کے آغاز پر تحریر کی ہیں۔ فقیر راحموں اکسارہا ہے کہ شاہ پوری نظم لکھو لیکن ہم اس کی بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ اج اسے لفٹ کرانے کا ارادہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لکھنے بولنے گلا پھاڑ کر شور مچانے یا گریبان کو پرچم بنالینے سے ’’حقیقت‘‘ تبدیل نہیں ہوگی اس لئے سب اچھا ہے کی تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے۔
ویسے بھی ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ اس بات پر ایمانِ کامل رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بنا پتہ بھی نہیں ہلتا۔ ایمانِ کامل کے اس نکتے کی روشنی میں ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ نظام جیسا بھی ہے ’’وہی‘‘ چلارہا ہے۔
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ ایٹمی پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نہ صرف حافظ قرآن ہیں بلکہ حسنی سادات کے خانوادے کے فرزند بھی ہیں۔ اٹھہتر برسوں میں یہ دوسرے سید زادے آرمی چیف ہیں۔ پہلے سید پرویز مشرف دہلوی تھے اب آپ ان دو سید زادے آرمی چیفوں کے معاملے میں اگر مرحوم تاج حیدر سے انٹرویو میں میرے پوچھے گئے ایک سوال کو سامنے رکھ کر دانش کا فیثا غورث بننے کی کوشش کریں گے تو مجھے کہنا پڑے گا کہ
’’سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے‘‘۔ یا یوں کہ ’’ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں‘‘۔
ہم آگے بڑھ لیتے ہیں۔ ملک میں کوئی ایسا سنگین مسئلہ ’’ہرگز‘‘ نہیں جس کی وجہ سے صاحبان اقتدار و اختیارات کو راتوں میں نیند نہ آتی ہو۔ 25 کروڑ عام آدمی اگر میٹھی نیند سو نہیں پاتے تو وہ حسب توفیق اپنے حکیم، مولوی، پیر اور ڈاکٹر سے رجوع کریں صحت کے معاملے میں معمولی سی غفلت بڑے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
” ملخ ” ملک میں اس وقت سب اچھا ہے۔ مہنگائی نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں۔ اب یہ نا کہنے لگ جائیے گا کہ قوت خرید دم توڑ چکی ہے۔ آپ اپنے چار اور کھلے نئے پرانے ہوٹلوں، کیفیز، قوالی و گانا برانڈ نئے چائے خانوں شنواری ہوٹلز اور چرسی تکہ پر رش کو دیکھ کر ایمان سے بتایئے کہ اگر مہنگائی ہوتی تو ان نئے پرانے دیسی ہوٹلوں پر اتنا رش ہوتا؟
ابھی ہم نے فاسٹ فوڈز چینز پر امڈے ممی ڈیڈیز برائلرز وغیرہ کی بات ہی نہیں کی۔ آپ سبزی لینے جائیں تو ایک طبقے کو دھنیا اور ہری مرچ بھی خریدنی پڑتی ہے ایک طبقے کو ٹماٹر مفت ملتے ہیں یہ مفت ٹماٹروں والی بات عالم اسلام کے عظیم اور آخری قائد عمران خان کی ایک حامی خاتون نے کی تھی ویڈیو سوشل میڈیا پر دستیاب ہے دیکھ کر دل پشوری کرلیجئے۔
خواتین و حضرات ! سرائیکی وسیب کے لوگ صوبہ نہ بنائے جانے پر ناراض تھے ہی اب چولستان میں اراضی مقامی لوگوں کو دینے کی بجائے عالمی معیار کی زراعت گری کے لئے ” سنبھال ” لئے جانے پر ناراض ہیں۔
سندھ والے 6 نئی نہریں نکالے جانے کے عسکری پروگرام پر برہم ہیں۔ بلوچستان مسائل کے آتش فشاں پر ’’بیٹھا‘‘ ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایک جانب کالعدم عسکری تنظیموں کی جہادی دہشت گردی جارہی ہے۔ دوسری طرف کرم پارا چنار کا معاملہ امن معاہدے کے باوجود دگرگوں ہے۔
تیسری جانب ہماری پہلی محبت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی سیاسی وارث عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان نے ’’مائنز اینڈ منرلز بل‘‘ پر علمِ بغاوت بلندکرنے کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ روز کہا ہے کہ اگر اکتوبر تک 18ویں ترمیم کو روندنے کے پروگرام اور مقامی وسائل ہتھیانے کے ایجنڈے کو ترک نہ کیا گیا تو ان کی جماعت نومبر میں ” حق دو یا آزادی دو ” کے نعرے کے ساتھ میدان عمل میں اترے گی۔
خان صاحب، ( پی ٹی آئی کے ) بانی عسکری اشرافیہ کے سابق محبوب اور سابق وزیراعظم عمران خان کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت اڈیالہ جیل میں ہیں سوشل میڈیا پر اب بھی ان کا جادو چلتا ہے جوانی کے "کرش” کے لوگ دیوانے ہیں۔ دیوانے ہی اس وقت بڑا طبقہ ہیں کوئی مانے یا نہ مانے۔
آصف علی زرداری علیل ہیں ان کی علالت کی ابتدائی خبروں کے ساتھ خان صاحب کے دیوانوں نے خبرِ مرگ چھپائی جارہی کا کورس گانا شروع کردیا تھا لیکن وہ مخالفوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے لئے صحت یابی کی طرف نیو خان بس سروس کی سپیڈ سے رواں دواں ہیں۔
خواتین و حضرات ! بالائی سطور میں جن مسائل، ناراضگیوں، مستقبل کی امکانی بغاوتوں، موجود آتش فشاں، خان کے دیوانوں وغیرہ کی جو باتیں کیں وہ اپنی جگہ اس کے باوجود ملک میں سب اچھا ہے۔ مسجد میں نمازیوں کا رش ہے، بازاروں میں خریداروں کا بسوں ٹرینوں ویگنوں اور ہوائی جہازوں کےساتھ چنگچی رکشوں میں مسافروں کا ہجوم ہے۔
دیسی ہوٹلوں (نئے پرانے) فاسٹ فوڈز چینز وغیرہ پر شکم سیری کرنے والوں کا رش لگا پڑا ہے۔ ہاں فاسٹ فوڈز چینز سے یاد آیا آجکل کے ایف سی والے غزہ کی محبت میں سرشار دیوانوں کے زیرعتاب ہیں۔
اسلامی بینکاری کے سب سے بڑے ایک کاروباری خاندان کے سربراہ مفتی تقی عثمانی نے عالم اسلام پر جہاد فرض ہے کا فتویٰ دے دیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نیتن یاہو کو ڈھونڈنے کے لئے الگ سے کھجل ہرہورہا ہے ہمارے قابل احترام دوست اور دیوبندی مکتب کے امیر سیاست حضرت مولانا فضل الرحمن بھی ملین مارچوں سے جی بہلا اور خون گرمارہے ہیں۔
ان ساری باتوں اور گھاتوں کے باوجود ہر طرف سب "اچھا” ہے ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے آپ کو بتاچکا کہ آرمی چیف حسنی سادات کے خانوادے سے ہیں اور حافظ قرآن بھی۔
محنت کش باپ کے فرزند میاں شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔ بمبینوں پلازہ والے حاکم علی زرداری مرحوم کے صاحبزادے آصف علی زرداری دوسری بار صدر مملکت کے طور پر ایوان صدر میں مقیم ہیں۔
سابق خاتون اول بشریٰ بیگم اپنے شوہر سمیت جیل میں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر آجکل ٹی وی چینلوں کی شیخ رشید برانڈ ڈارلنگ ہیں۔
جو ہے آپ کے اور ہمارے چار اور ہے۔ ان سب کے باوجود
’’آلو، بالو، خواتین و حضرات!سب ’’اچھا‘‘ ہے۔
یہودہنود کے پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں پاکستان معدنیات کی دنیا کی قیادت کے لئے "اڑان” بھرچکا۔
باقی سب خیریت ہے آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button