
نیتن یاہو ذاتی وفاداری کے طالب تھے، اسرائیلی انٹیلیجنس چیف
وزیر اعظم نیتن یاہو نے انہیں شین بیت کی سربراہی سے برطرف کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا، جب بار نے وزیر اعظم کا ذاتی وفاداری کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کر دیا
وزیر اعظم نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل داخلی سلامتی کے نگران ملکی خفیہ ادارے شین بیت کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا اور اسی دوران وزیر اعظم نیتن یاہو نے شین بیت کا ایک نیا سربراہ بھی نامزد کر دیا تھا۔
لیکن رونن بار کی برطرفی کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے ابھی تک کوئی بھی حتمی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ سکی۔

رونن بار کا سپریم کورٹ میں بیان حلفی
پیر 21 اپریل کے روز اسرائیلی سپریم کورٹ میں شین بیت کے ‘برطرف شدہ‘ سربراہ نے اپنا، جو بیان حلفی جمع کرایا، اس میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے داخلی سلامتی کے ذمے دار ادارے کے سربراہ کے طور پر ان سے اپنے لیے ذاتی وفاداری کا مطالبہ کیا تھا۔
رونن بار نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے انہیں شین بیت کی سربراہی سے برطرف کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا، جب بار نے وزیر اعظم کا ذاتی وفاداری کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔
رونن بار نے اپنے حلفیہ بیان میں اسرائیلی سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کے طور پر وہ نہ صرف حکومت مخالف اسرائیلی مظاہرین کی جاسوسی کریں بلکہ ساتھ ہی سرابرہ حکومت کے خلاف جاری کرپشن کے مقدمے کی کارروائی میں رکاوٹیں بھی ڈالیں۔

نیتن یاہو نے فیصلہ ‘پیشہ وارانہ بنیادوں پر نہیں‘ کیا تھا
رونن بار نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے حلفیہ بیان میں مزید کہا کہ اس سال مارچ میں ملکی وزیر اعظم نے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا جو فیصلہ کیا، وہ پیشہ وارانہ بنیادوں پر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کی بنیاد وزیر اعظم کی طرف سے کیے جانے والے ذاتی وفاداری کے مطالبات کا بار کی طرف سے پورا نہ کیا جانا تھا۔
نیتن یاہو کے دفتر کا ردعمل
شین بیت کے سربراہ بار کے اس حلفیہ بیان کے جواب میں وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے کہا گیا کہ بار کی طرف سے کیے گئے دعوے غلط ہیں اور ان کی طرف سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا حلفیہ بیان بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔
ساتھ ہی نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کا آفس سپریم کورٹ میں بار کے دعووں کی اچھی طرح تردید کرنے والا ایک بیان عنقریب ہی جمع کرا دے گا۔
بار کی برطرفی کی معطلی کا عدالتی حکم
بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے کے خلاف اسرائیل میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ پھر جب رونن بار نے عدالت سے رجوع کیا، تو اسرائیلی سپریم کورٹ نے بار کی برطرفی کا حکم بھی معطل کر دیا تھا۔
اس سے قبل اسرائیلی سیاست پر نگاہ رکھنے والے متعدد ملکی اداروں اور کئی اپوزیشن ارکان پارلیمان نے بھی یہی دلائل دیے تھے کہ نیتن یاہو کی طرف سے با رکی برطرفی ایک غیر قانونی اقدام تھا۔
اس موقع پر ناقدین کی طرف سے نیتن یاہو حکومت پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے کلیدی ریاستی اداروں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسرائیلی جمہوریت کی بنیادوں کو بھی خطرے میں ڈال رہی تھی۔
اس کے برعکس نیتن یاہو کی سیاسی جماعت لیکوڈ پارٹی کی طرف سے شین بیت کے سربراہ کے طور پر رونن بار پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کام کر رہے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے ملک کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے طور پر شین بیت کے ایک حصے کو ”ڈیپ اسٹیٹ کی ایک نجی ملیشیا میں تبدیل‘‘ کر رکھا تھا۔

بار کی برطرفی کے حق میں حکومتی دلیل
اسرائیل کی حکومت اس سارے معاملے میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حامی ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ انہوں نے رونن با رکو اس لیے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ بار پر اعتماد کھو چکے تھے۔ نیتن یاہو کے مطابق اس اعتماد کی کمی کی وجہ یہ تھی کہ داخلی سلامتی کے نگران خفیہ ادارے کے طور پر بار کی قیادت میں شین بیت اسرائیل میں سات اکتوبر 2023ء کے حماس کے اس بڑے دہشت گردانہ حملے کو روکنے میں ناکام رہی تھی، جو ایک بڑی سکیورٹی ناکامی تھی اور جس کے نتیجے میں غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی۔
نیتن یاہو کے اس موقف کے برعکس رونن بار کے بیان حلفی کے ‘نان کلاسیفائیڈ‘ حصے میں شین بیت کے سربراہ نے کہا ہے کہ نیتن یاہو نے انہیں برطرف کرنے کی کوششیں حماس کے اسرائیل پر حملے کے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے بعد شروع کیں۔
رونن بار نے نومبر 2024ء اور فروری 2025ء کے درمیانی عرصے کے کئی ایسے واقعات کا حوالہ بھی دیا، جو ان کے بقول بظاہر نیتن یاہو کی اس سوچ کی وجہ بنے کہ وہ بار کو برطرف کر دیں۔
رونن بار کی برطرفی کے خلاف مقدمے کی اسرائیلی سپریم کورٹ میں سماعت کا عمل ابھی جاری ہے۔
بار کی طرف سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں جمع کرائے گئے بیان حلفی کے ‘نان کلاسیفائیڈ‘ حصے آج پیر کے روز اسرائیلی اٹارنی جنرل کے دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے۔