مشرق وسطیٰ

اسرائیل ایران جنگ کے ختم ہونے کا امکان کتنا ہے؟ جانیں مغربی ممالک کی کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں؟

دوسری جانب سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مذاکرات ختم ہونے کے بعد یورپی حکام نے مستقبل میں مذاکرات کی امید ظاہر کی۔ ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ وہ مزید بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

تل ابیب: اسرائیل ایران جنگ شروع ہوئے ایک ہفتے ہو چکا ہے اور آج بھی دونوں طرف سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف جاری جنگ میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف کئی یورپی ممالک کے وزراء نے ‘تنازع کو کم کرنے’ کے لیے جنیوا میں ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس کے باوجود کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
اسرائیل ایران جنگ پر مغربی ممالک اور ایرانی حکام کے درمیان پہلی میٹنگ چار گھنٹے کے بعد ختم ہو گئی تاہم فوری طور پر کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اس طرح یورپ کی مبینہ سفارتی کوششوں کے باوجود اسرائیل اور ایران کے درمیان حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دوسری جانب سفارت کاری کو ‘موقع’ دینے کے لیے ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فضائی مہم میں شامل ہونے کے فیصلے کو دو ہفتے تک موخر کریں گے۔
جنگ میں امریکہ کی شمولیت میں ممکنہ طور پر ایران کی زیر زمین فورڈو یورینیم افزودگی کی تنصیب کے خلاف حملے شامل ہوں گے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی "بنکر بسٹر” بموں کے علاوہ کسی کے پاس فورڈو میں زیر زمین یورینیم افزودگی کی سہولت کو تباہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔
وہیں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ایران میں اسرائیل کا فوجی آپریشن "مقاصد کی تکمیل تک جتنا بھی وقت لگے” جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایران کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں کا صفایا نہیں ہو جاتا تب تک حملے جاری رہیں گے۔ اسرائیل کے اعلیٰ جنرل نے انتباہ کا اعادہ کیا اور کہا کہ اسرائیلی فوج ایک طویل مہم کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مذاکرات ختم ہونے کے بعد یورپی حکام نے مستقبل میں مذاکرات کی امید ظاہر کی۔ ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ وہ مزید بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
متعلقہ خبر: ایرانی وزیر خارجہ اور یوروپی ممالک کی بات چیت جنگ روک پائے گی؟ کیا نکلے گا کوئی سفارتی حل؟ جنیوا میں ہوئی بات چیت کی تفصیلات
لیکن وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دے کر کہا کہ جب تک اسرائیل کے حملے جاری ہیں تب تک تہران امریکہ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ "اگر حملے بند ہو جاتے ہیں اور حملہ آور کو اپنے کیے گئے جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے تو ایران سفارت کاری پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔” مذاکرات کے اگلے دور کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
ایران نے اپنی یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے اور امریکہ، فرانس، چین، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ 2015 کے معاہدے کے تحت بین الاقوامی معائنہ کاروں کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری مقامات تک رسائی دینے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن جب ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال دیا۔ اس کے جواب میں ایران نے 60 فیصد تک یورینیم کی افزودگی شروع کر دی۔ اسرائیل اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ایران ہتھیار بنانے کے لائق یورینیم تیار کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی میزائیلوں کی بارش سے گھٹنوں پر آئے نیتن یاہوں، امریکہ سے جلد از جلد جنگ میں شامل ہونے کی اپیل
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے میزائل بنانے والی تنصیبات سمیت درجنوں ایرانی فوجی اڈوں پر حملہ کیا۔ جس کے جواب میں ایران نے شمالی اسرائیل کے شہر حیفہ پر میزائل حملہ کیا۔ اس کی وجہ سے بحیرہ روم کی بندرگاہ پر دھویں کے بادل چھا گئے اور کم از کم 31 افراد زخمی ہو گئے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ 13 جون کو شروع ہوئی۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں جوہری اور فوجی مقامات، اعلیٰ جرنیلوں اور ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ واشنگٹن میں قائم ایرانی انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق ایران میں 263 شہریوں سمیت کم از کم 657 افراد ہلاک اور 2000 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے اندازوں کے مطابق ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر 450 میزائل اور 1000 ڈرون فائر کیے ہیں۔ ایران کے زیادہ تر میزائلوں کو اسرائیل کے ملٹی لیئرڈ ایئر ڈیفنس نے مار گرایا ہے۔ ایران کے اس حملے میں اسرائیلی حکومت کے مطابق 24 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
ایران کے جوہری ری ایکٹرز پر حملے کے خطرات پر تشویش بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ نے ایران کے جوہری ری ایکٹر خاص طور پر جنوبی شہر بوشہر میں واقع اس کے واحد جوہری پاور پلانٹ پر حملوں کے خلاف خبردار کیا۔
اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ "میں یہ بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بوشہر جوہری پاور پلانٹ پر حملے کے نتیجے میں ریڈیو ایکٹیویٹی بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔” "یہ ایران میں جوہری مقام ہے جہاں کے نتائج سب سے زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔”
اسرائیل نے ایران کے جوہری ری ایکٹروں کو نشانہ نہیں بنایا ہے لیکن اس نے اپنے حملوں کو نتنز میں یورینیم کی افزودگی کی مرکزی تنصیب، تہران کے قریب سینٹری فیوج ورکشاپس، اصفہان میں لیبارٹریوں اور دارالحکومت کے جنوب مغرب میں ملک کے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر پر مرکوز رکھا ہے۔ گروسی نے بارہا خبردار کیا کہ ایسی جگہوں کو فوجی اہداف نہ بنایا جائے۔
جمعرات کو اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر پر اسرائیل کے حملوں سے کوئی واضح نقصان نہ ہونے کی اطلاع دینے کے بعد آئی اے ای اے نے جمعہ کو کہا کہ اس نے اندازہ لگایا ہے کہ "جوہری تنصیب کی اہم عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔” مانیٹری نے کہا کہ ری ایکٹر آپریشنل نہیں تھا اور اس میں کوئی جوہری مواد نہیں تھا، اس لیے نقصان سے آلودگی کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اگرچہ یورینیم کی افزودگی کی تنصیبات جیسے کہ نتنز پر حملے سے ریڈیولاجیکل آلودگی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی ساختہ بوشہر پاور پلانٹ جیسے ری ایکٹرز کے مقابلے میں کسی دیگر تنصیب پر سنگین واقعے کا امکان بہت کم ہے۔
جوہری تنصیبات پر حملوں سے نقصانات کے تخمینوں کے بیچ مذاکرات کی باتوں کے ساتھ جنگ کی تیاری بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ایک طرف امریکہ بھاری جنگی مشنری، اسلحہ اور گولہ بارود مشرق وسطیٰ منتقل کر رہا ہے، اسی کے ساتھ یوروپی ممالک خاص طور سے برطانیہ نے ایران میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ ساری پیش رفت کوئی اشارہ نہیں دے رہی ہے۔ یہ ایران پر دباؤ بنانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے اور ایران پر بڑے حملے کی تیاری بھی۔ عین ممکن ہے کہ مذاکرات کو جنگ کی تیاری کے لیے مہلت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہو۔ وہیں دوسری طرف روس اور چین مسلسل امریکہ کو خبردار کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر اس جنگ میں دوسرے کھلاڑی بھی کود پڑھتے ہیں تو یہ جنگ پورے خطے کو اپنی زد میں لے سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button