
(سید عاطف ندیم-پاکستان): وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ایک سینئر معاون نے جمعہ کو خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس آبی معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی) کی معطلی چین کے لیے دریائے برہم پترا کو روکنے کی ایک مثال قائم کر سکتی ہے جس سے نئی دہلی کو ممکنہ طور پر مشکل صورتِ حال درپیش ہو سکتی ہے۔
بھارت چین سے خاص طور پر سطح مرتفع تبت سے نکلنے والے دریاؤں پر انحصار کرتا ہے جہاں سے بڑی آبی گذرگاہیں جیسے برہم پترا اور ستلج دریا شروع ہوتے ہیں۔
چین کی ڈیم بنانے کی سرگرمیوں اور پانی کی تقسیم کے باضابطہ معاہدے کی کمی سے بھارت میں مستقبل میں سیلاب یا خشک سالی کے دوران آبی تحفظ کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ قانونی طور پر پابند معاہدوں کی عدم موجودگی سے بھارت بیجنگ کے دور رس فیصلوں کا محتاج ہو جاتا ہے۔
چین نے 2016 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں باغیوں کے حملے کے بعد تبت میں ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے طور پر دریائے زیابوک کا پانی روک دیا تھا جو برہم پترا کو پانی فراہم کرتا ہے۔
رانا احسان افضل نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگر ہندوستان نے کچھ ایسا کیا کہ پاکستان کی طرف دریاؤں کا پانی رک جائے تو چین بھی ایسا ہی کرسکتا ہے۔ لیکن اگر معاملات اس طرح ہوئے تو تمام دنیا میں ایک جنگ شروع ہو جائے گی۔”
سندھ طاس آبی شراکت کا ایک تاریخی معاہدہ ہے جس پر 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دستخط ہوئے تھے تاکہ ہمالیہ سے دونوں ممالک میں بہنے والے دریاؤں کے استعمال کا انتظام کیا جائے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج پر جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر حقوق دیئے گئے۔
متعدد جنگوں اور جاری کشیدگی کے باوجود یہ معاہدہ بڑی حد تک پائیدار تعاون کی ایک نادر مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔
تاہم بھارت نے بدھ کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں باغیوں کے ایک مہلک حملے کے بعد پاکستان کے خلاف مختلف اقدامات کرتے ہوئے آبی اشتراک کا چھے عشروں پرانا معاہدہ معطل کر دیا۔ مذکورہ حملے کے لیے وہ اسلام آباد کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے جس میں پہلگام کے ایک سیاحتی مقام پر 26 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ بھارت کے اقدامات سے 250 ملین لوگوں کے غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق ہے، افضل نے کہا کہ بین الاقوامی آبی قوانین کے تحت دریا کے بالائی ممالک پانی "روک” نہیں سکتے بلکہ اسے صرف "منظم” کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، دریا کے بالائی اور زیریں ممالک پوری دنیا میں پرامن طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں اور خبردار کیا کہ بھارتی دھمکی سے آبی تقسیم کے پرامن طریقہ کار کے پورے نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کشیدگی کو ممکنہ طور پر تنازعات کی طرف لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اقوامِ متحدہ اور تمام دنیا میں دریا کے زیریں ممالک اس کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
افضل نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان سفارتی ذرائع سے دوست ممالک سے رابطہ کر رہا ہے اور اقوامِ متحدہ سے بھی رابطے میں ہے۔