پاکستان پریس ریلیز

مودی حکومت کی "پاکستان کا پانی بند کرنے” کی پرانی خواہش، 2016 میں بنائی گئی ٹاسک فورس نے منصوبے کو ناقابلِ عمل قرار دیا

سندھ طاس معاہدہ 1960 کے تحت بھارت کے پاس صرف تین مشرقی دریاؤں (ستلج، راوی، بیاس) کے استعمال کا اختیار ہے؛ مغربی دریا پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان):ہندوستان کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی خواہش نئی نہیں بلکہ کئی سال پرانی ہے۔ 2016 میں اوڑی حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہدایت پر ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی تھی تاکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان جانے والے پانی کی روانی کو محدود یا روکا جا سکے۔ تاہم، اس ٹاسک فورس نے تفصیلی جائزے کے بعد اس منصوبے کو نہ صرف انتہائی پیچیدہ بلکہ ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، مودی حکومت نے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول اور دیگر اعلیٰ حکام کی سربراہی میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر متعدد اجلاس بلائے۔ اس دوران یہ غور کیا گیا کہ سندھ، چناب اور جہلم کے دریاؤں کا پانی جو پاکستان جاتا ہے، کس حد تک روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ماہرین نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے نہ صرف عالمی سطح پر بھارت کو قانونی و سفارتی محاذ پر شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ خطے میں ایک سنگین آبی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
بھارتی ٹاسک فورس کی رپورٹس کے مطابق:
سندھ طاس معاہدہ 1960 کے تحت بھارت کے پاس صرف تین مشرقی دریاؤں (ستلج، راوی، بیاس) کے استعمال کا اختیار ہے؛ مغربی دریا پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔
پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔
اس اقدام سے چین جیسے ممالک بھی بھارتی دریاؤں پر دباؤ ڈالنے کا جواز حاصل کر سکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق
بھارت کی جانب سے وقتاً فوقتاً دریائے سندھ کا پانی روکنے کی دھمکیوں کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی اقدام پاکستان کے آبی بہاؤ کو مکمل طور پر متاثر نہیں کر سکتا، کیونکہ دریائے سندھ میں شامل ہونے والے پانی کا تقریباً 80 فیصد حصہ پاکستان کے اپنے علاقوں — گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، اور دریائے کابل — سے آتا ہے، جب کہ بھارت صرف 20 فیصد پانی کے بہاؤ پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
ماہرینِ آب کے مطابق، دریائے سندھ کا اصل منبع تبت میں واقع ہے، لیکن اس کا بڑا حصہ گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ مزید برآں، دریائے کابل، سوات، پنچکوڑہ، اور دیگر دریا بھی اس میں شامل ہو کر اس کے بہاؤ کو مزید طاقتور بناتے ہیں۔
آبی تجزیہ کاروں کے مطابق:
بھارت صرف مغربی دریاؤں (چناب، جہلم، سندھ) کے مخصوص حصوں پر محدود کنٹرول رکھتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو صرف "غیر مصرف شدہ پانی” کے محدود استعمال کی اجازت ہے۔
اگر بھارت زیادہ سے زیادہ جتن بھی کرے تو وہ صرف 20 فیصد پانی روک سکتا ہے، باقی 80 فیصد پانی پاکستان کے اندرونی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔
سینئر ماہرِ آبی وسائل، ڈاکٹر امجد علی کے مطابق:
"یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ دریائے سندھ کا زیادہ تر پانی برف باری، گلیشیئرز اور مقامی دریاؤں سے حاصل ہوتا ہے۔ بھارت کے بیانات محض سیاسی نوعیت کے ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ سندھ کا بہاؤ برقرار رہے گا۔”
پاکستانی حکام نے بھی اس موقف کو تقویت دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے پانی کی بندش کی کوششیں عملی طور پر قابلِ عمل نہیں اور کسی بھی ایسی حرکت کی صورت میں پاکستان عالمی فورمز پر مؤثر آواز بلند کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً پانی روکنے کی دھمکیاں محض سیاسی بیانات ہیں جو زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔
پاکستان کی جانب سے اس قسم کے بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button