پاکستاناہم خبریں

پاکستان کی جانب سے سابق صدر ٹرمپ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی: ایک اسٹریٹجک سفارتی اقدام جنوبی ایشیا میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے

یہ نامزدگی ایک سوچی سمجھی اور اسٹریٹجک سفارتی حکمت عملی کا حصہ تھی،

21 جون 2025 کو پاکستان نے ایک غیر معمولی مگر مدبرانہ قدم اٹھاتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا۔ اس فیصلے نے عالمی سفارتی حلقوں میں حیرت اور تجزیے کے کئی دروازے کھول دیے ہیں، تاہم اسلام آباد نے واضح کیا ہے کہ یہ نامزدگی ایک سوچی سمجھی اور اسٹریٹجک سفارتی حکمت عملی کا حصہ تھی، جس کا مقصد جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات کو مضبوط کرنا اور فوجی محاذ آرائی کے خطرات کو کم کرنا تھا۔
پاکستان کا موقف: امن کے لیے دباؤ، جنگ سے گریز
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی و عسکری تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ مودی حکومت کی جارحانہ بیانات، سرحدی جھڑپوں اور سفارتی سختی نے خطے میں ایک ممکنہ تصادم کا خدشہ بڑھا دیا تھا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق:’’صدر ٹرمپ کی نوبل نامزدگی کوئی اندھا اعتماد یا بلینک چیک نہیں، بلکہ ایک نپی تلی سفارتی چال تھی جس کا مقصد امریکہ میں پالیسی سازوں کو جنوبی ایشیا میں تحمل اختیار کرنے کی ترغیب دینا تھا۔‘‘
پاکستان نے اس نامزدگی کے ذریعے بھارت کے سخت گیر بیانیے کے مقابل امن کی پالیسی کو اخلاقی برتری کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
نامزدگی کا پس منظر: بار بار امن کی اپیل
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے 2025 کے ابتدائی مہینوں میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران کئی بار دونوں ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ تحمل سے کام لیں اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں۔ ان کے ان بیانات کو پاکستان نے خوش آئند اور تعمیری قرار دیا اور اسے ایک سفارتی موقع میں بدلا۔
ایک سینئر پاکستانی سفارتکار کے مطابق:’’ہم نے ٹرمپ کی امن پسندی کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ بین الاقوامی سطح پر ایسے بیانیے کو تقویت ملے جو جنگ کے بجائے مفاہمت کو فروغ دے۔‘‘
ایران پر حملے سے پہلے لیا گیا فیصلہ
یہ نکتہ خاص طور پر اہم ہے کہ یہ نامزدگی ایران پر امریکی فضائی حملے سے ٹھیک 24 گھنٹے قبل کی گئی تھی۔ ناقدین کی جانب سے اس فیصلے کے وقت پر سوال اٹھائے گئے، تاہم حکومت پاکستان کا مؤقف واضح ہے:
’’یہ فیصلہ اُس لمحے کے انٹیلی جنس، سفارتی، اور علاقائی تناظر میں کیا گیا تھا — اسے بعد میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں جانچنا غیر منصفانہ ہوگا۔‘‘
بعد ازاں پاکستان نے ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین اور ایرانی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔
بلینک چیک نہیں، سفارتی اشارہ ہے
پاکستانی وزارت خارجہ نے بارہا اس امر کو دہرایا ہے کہ:نوبل امن انعام کے لیے کسی کی نامزدگی، اس کی مکمل پالیسیوں کی حمایت نہیں ہوتی۔
اسلام آباد نے ہمیشہ عالمی سطح پر ذمہ دارانہ اور اصولی خارجہ پالیسی اپنائی ہے۔
پاکستان نے ایران، فلسطین، اور دیگر خطوں میں ظلم و جارحیت کے خلاف دو ٹوک موقف اختیار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا:’’ہم نے ایران پر حملے کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی، اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ امن کی بات کرنا اور اس پر عمل کرنا دو الگ باتیں ہیں۔‘‘
پاکستان کا سفارتی لیور: امریکہ کے سامنے نئی پوزیشننگ
اس نامزدگی نے پاکستان کو سفارتی طور پر ایک نیا لیور (Lever) فراہم کیا ہے، جس کے ذریعے وہ امریکہ پر علاقائی تناؤ کم کرنے اور بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے زور دے سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ:پاکستان اب اس نامزدگی کو بطور حوالہ استعمال کر سکتا ہے کہ وہ امن کی وکالت کر رہا ہے۔
یہ قدم نہ صرف واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں نرمی لاتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے امن پسند امیج کو بھی تقویت دیتا ہے۔
عالمی پیغام: پاکستان امن کا داعی ہے، فریق نہیں
پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ:وہ کسی عالمی یا علاقائی فوجی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔
وہ نہ تو کسی بلاک سیاست کا حامی ہے، نہ کسی عالمی طاقت کے عسکری مفادات کا آلہ کار۔
پاکستان ہمیشہ خودمختاری، مساوات، اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر یقین رکھتا ہے۔
یہ نوبل نامزدگی درحقیقت پاکستان کے اسی نظریاتی، اصولی، اور تدبر پر مبنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کو اجاگر کرتی ہے۔
ایک وقتی فیصلہ، طویل المدتی اثرات
ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبل نامزدگی چاہے امن انعام کی دوڑ میں کامیاب ہو یا نہ ہو، پاکستان کی یہ سفارتی چال دنیا کو یہ پیغام ضرور دے گئی ہے کہ:
اسلام آباد جنگ کی راہ کا مخالف ہے،
بات چیت اور تحمل کو فروغ دینے والا ملک ہے،
اور وہ عالمی سطح پر امن کے لیے ایک متوازن، باوقار اور نڈر کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button