
(سید عاطف ندیم-پاکستان): بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے)بلوچیت کے لبادے میں چھپی ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے بلوچ عوام بالخصوص بچوں کا قتل عام کیا اور تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرکے ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے ایک بار پھر سیکیورٹی اداروں، پالیسی سازوں اور عوامی شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ حالیہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے، جو ایک عرصے سے ریاستِ پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ تاہم ان کارروائیوں کے پیچھے صرف مقامی عوامل نہیں بلکہ بیرونی مداخلت اور پشت پناہی کا پہلو بھی نمایاں ہوتا جا رہا ہے، جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اہم اور حساس پہلو بھارت کی مبینہ مدد ہے۔ سیکیورٹی اور انٹیلیجنس ذرائع کا مؤقف ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے نہ صرف بی ایل اے سے رابطے مضبوط کیے بلکہ ان کی مالی معاونت میں بھی اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں تنظیم کی کارروائیاں پاکستان میں زیادہ منظم اور مہلک ہوتی جارہی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب جب بھارت میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس کے بعد بلوچستان میں کسی نہ کسی دہشت گرد کارروائی کی اطلاع آتی ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جسے نظرانداز کرنا ریاستی سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
پاکستان عرصہ دراز سے دنیا کو یہ باور کراتا رہا ہے کہ بھارت، خاص طور پر اس کی خفیہ ایجنسی "را”، بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات اس بات کے اہم شواہد ہیں کہ کس طرح پاکستان میں دہشت گردی کو بیرونی عناصر منظم انداز میں فروغ دے رہے ہیں۔ ایسے میں بی ایل اے جیسی تنظیموں کی فنڈنگ، ٹریننگ اور اسلحہ رسائی کے ذرائع پر سنجیدہ سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی محض سیکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور سفارتی جنگ بھی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف عالمی سطح پر بھارت کے ان کرداروں کو بے نقاب کرے بلکہ بلوچستان میں عوامی شمولیت، ترقیاتی اقدامات اور شفاف مکالمے کے ذریعے اس شورش کا مستقل حل تلاش کرے۔ اگر محرومیوں اور بداعتمادی کے ماحول کو ختم کیا جائے تو بیرونی ایجنڈے یہاں پنپ نہیں سکیں گے۔
بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں محض ایک دہشت گرد تنظیم کی کارروائیاں نہیں، بلکہ یہ اس وسیع تر سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا ہے۔ اس کے لیے نہ صرف عسکری، بلکہ سفارتی، سیاسی اور سماجی محاذ پر مربوط حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔
بی ایل اے قومی سلامتی کے لیے ٹی ٹی پی کی طرح ’بڑا سکیورٹی تھریٹ‘
پاکستان کے ایک معتبر تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) قومی سلامتی کے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جتنے ہی بڑے سکیورٹی خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے۔ یہ انکشاف حالیہ سکیورٹی تجزیاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے، جس میں بلوچستان اور دیگر حساس علاقوں میں بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بی ایل اے نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونی پشت پناہی سے بھی مستفید ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کی کارروائیوں میں پیشہ ورانہ مہارت اور شدت آئی ہے۔ تھنک ٹینک کے مطابق، بی ایل اے کی حکمت عملی میں سکیورٹی فورسز، اہم تنصیبات اور چینی مفادات کو ہدف بنانا شامل ہے، جو ملک کے لیے ایک دیرپا خطرہ بن سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جیسے ٹی ٹی پی نے ماضی میں خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں عدم استحکام پیدا کیا، ویسے ہی بی ایل اے بلوچستان اور ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی اور ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کر رہی ہے۔
حکام نے تجویز دی ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی میں فوری نظرثانی کرتے ہوئے بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو مزید مضبوط کیا جائے اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ عوامی شراکت اور مقامی سطح پر اعتماد کی بحالی کے بغیر پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔