
پاکستان کے پہلگام حملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، حنا ربانی کھر
یہ حملے’’ایسے ثبوت یا مبینہ شواہد کی بنیاد پر کیے گئے، جنہیں نہ تو پاکستان کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔‘‘
- دشمن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، وزیر اعظم شہباز شریف
- پاکستان بھارت کے ہر وار کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، حنا ربانی کھر
- پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ
- پاکستانی شیلنگ سے کم از کم 12 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے، بھارتی حکام
- مظفرآباد میں مسجد کے قریب حملہ، شہریوں میں خوف و ہراس
- بھارت کے خلاف جوابی کارروائی شروع ہو چکی ہے، پاکستانی وزیر دفاع
دشمن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، پاکستانی وزیر اعظم

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی فضائیہ کی مبینہ دراندازی کے جواب میں پاکستانی مسلح افواج کے کردار کوسراہتے ہوئےکہا، ’’پاکستانی فضائیہ نے بروقت اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے پانچ بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔‘‘
بدھ کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے 22 اپریل کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں پر ہونے والے حملے کا جھوٹا الزام پاکستان پر لگایا، جس کے بعد سے پاک فضائیہ مسلسل ہائی الرٹ پر تھی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا، ’’ہماری افواج چوبیس گھنٹے تیار تھیں کہ کب دشمن کے جہاز اڑیں اور کب ہم انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں۔‘‘
پاکستانی وزیرِ اعظم نے بتایا کہ انہوں نے پہلگام واقعے کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی تھی، لیکن نئی دہلی نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ 29 اپریل کی شب بھارتی رافال طیارے جنگی ترتیب میں فضا میں بلند ہوئے، لیکن پاکستان نے ان کے مواصلاتی نظام کو کامیابی سے جام کر دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا،’’ دشمن کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ انہوں نےمزید کہا، ’’بھارتی طیارے واپس پلٹنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا ہوتا تو انڈیا کے پانچ کے بجائے دس طیارے گرے ہوتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جو کہتے تھے کہ پاکستان روایتی جنگ میں پیچھے ہے انہیں کل رات خبر ہو گئی۔‘ وزیراعظم نے کہا کہ انڈیا کے گرائے گئے طیاروں میں تین رافال طیارے بھی شامل ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان 24 کروڑ عوام کا ایک ایسا ملک ہے جو نیوکلیئر طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح بھارتی حملے کا جواب دیا گیا ہے اب دیگر ممالک بھی پاکستان کی طرف دیکھیں گے اور مدد کی درخواست کریں گے۔
پاکستان کے پہلگام حملے میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، حنا ربانی کھر
پاکستان کی سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کی جانب سے پاکستانی سرزمین اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر کیے گئے میزائل حملوں کی شدید مذمت کرتےہوئے کہا ہے کہ بھارت نے محض الزامات کی بنیاد پر حملہ کر کے دونوں ملکوں کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔
کھر نے کہا کہ یہ حملے’’ایسے ثبوت یا مبینہ شواہد کی بنیاد پر کیے گئے، جنہیں نہ تو پاکستان کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ، ’’میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ آپ اس بات کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھیں کہ ایک ملک جھوٹا بیانیہ گھڑ رہا ہے، انتہا درجے کی قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے، صرف اس لیے کہ اس کی حکومت کو ووٹ اور عوامی حمایت حاصل ہو۔ اور اس مقصد کے لیے وہ میزائلوں کے ساتھ جوہری طاقت رکھنے والے ایک ملک پر حملہ کر دیتا ہے۔ اب ذرا تصور کریں کہ اس کشیدگی کی سیڑھی کہاں جا کر ختم ہو گی؟‘‘
کھر نے یاد دلایا کہ پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے اور روایتی جنگ کی صورت میں ’’بھارت کے ہر وار کا جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنا کردار ادا کرے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر میں پاکستان پر شدت پسندی کی حمایت کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان اور بھارت کی دشمنی ایک حقیقت ہے، مگر ہمارے پاس ایسے شواہد موجود ہیں، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ بھی شیئر کیے جا چکے ہیں کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہا ہے اور مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت کرتا آیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’اگر بھارت پاکستان پر کوئی الزام عائد کرنا چاہتا ہے، تو شاید اس میں کوئی حقیقت ہو، لیکن اس کی بنیاد پر بغیر کسی شواہد کے میزائل حملے کر دینا اور یہ توقع رکھنا کہ کوئی سوال بھی نہ اٹھے، یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
انہوں نے نئی دہلی کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا کہ پاکستان نے شدت پسندی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا،’’پاکستان گزشتہ 10 سے 15 برسوں سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ہماری افواج ان دہشت گردوں سے لڑ رہی ہیں، جو پاکستان میں بھی معصوم جانیں لے رہے ہیں۔ یہی ہماری ترجیح ہے۔‘‘
عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ

بین الاقوامی بحرانوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی تجزیہ کار پروین ڈونتھی کے مطابق، ’’بھارت اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی 2019 کے بڑے بحران سے بھی آگے جا چکی ہے اور اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘‘
عالمی سفارت کاروں نے دونوں ممالک کی قیادت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے تاکہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان اسٹیفان دوجارک نے ایک بیان میں کہا، ’’دنیا بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی ، ’’یہ لڑائی جلد ختم ہو جائے گی۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نئی دہلی اور اسلام آباد میں اعلیٰ سکیورٹی حکام سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ وہ صورتحال پر ’’قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
چین، برطانیہ، فرانس اور روس سمیت کئی ممالک کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ متعدد بین الاقوامی ایئرلائنز نے خطے کے لیے اپنی پروازیں منسوخ، مؤخر یا متبادل راستوں پر منتقل کر دی ہیں۔ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 سے مسلح بغاوت جاری ہے، جہاں باغی یا تو آزادی یا پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بھارت مسلسل پاکستان پر ان گروہوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتا آیا ہے، جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے۔
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھی ہلاکتیں

ادھر بھارتی فوج نے پاکستان پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار ’’اندھا دھند‘‘ فائرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے قصبے پونچھ کے ایک زخمی شہری، فاروق، نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو ہسپتال کے بستر سے بتایا، ’’ہم فائرنگ کی آواز سن کر جاگے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندوں نے بھارتی قصبے پونچھ میں شیلنگ کے دوران آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے دیکھے۔ مقامی حکام کے مطابق اس حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے۔
بھارت کی جانب سے یہ فوجی کارروائی متوقع تھی، جس کا پس منظر 22 اپریل کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں پیش آنے والا حملہ ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ملوث مسلح افراد کا تعلق پاکستان میں قائم تنظیم لشکرِ طیبہ سے تھا، جسے اقوام متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔
نئی دہلی نے حملے کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا، سخت بیانات اور سفارتی اقدامات کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ اسلام آباد نے بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ بدھ کے روز پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھارت کے میزائل حملوں کو ’’سنگین جارحانہ کارروائی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کا ’’جواب ضرور دیا جائے گا۔‘‘
بھارتی فوج کے مطابق 24 اپریل سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر دونوں جانب سے ہر رات فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ پاکستان نے اس دوران دو میزائل تجربات بھی کیے۔
‘ہر کوئی خوف زدہ تھا‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی شہر مظفرآباد میں بدھ کو ایک مسجد کے قریب بمباری کے بعد علاقے کو سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا۔ اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ مسجد بھارتی حملے کا نشانہ بنی۔ قریبی گھروں کی دیواروں پر بم دھماکوں کے نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس مسجد کے قریب رہائش پذیر ایک شہری محمد سلمان نے بتایا، ”رات بھر خوفناک آوازیں سنائی دیتی رہیں، ہر کوئی خوفزدہ تھا۔‘‘
اس شیلنگ سے زخمی ہونے والے ایک نوجوان طارق میرکا کہنا تھا، ”ہم اب کسی محفوظ مقام کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم بے گھر ہو چکے ہیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے مابین دو دہائیوں کی بد ترین جھڑپیں، 38 افراد ہلاک

بھارت کی جانب سے پاکستان پر میزائل حملوں کے بعد دونوں حریف ممالک کے مابین متنازعہ سرحد پر شدید گولہ باری کا تبادلہ ہوا ہے، اس لڑائی میں دونوں جانب سے کم از کم 38 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حالیہ برسوں میں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان بدترین کشیدگی ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ بھارتی حملوں اور سرحدی گولہ باری میں اس کے کم از کم سے 26 شہری مارے گئے، جبکہ نئی دہلی نے پاکستانی شیلنگ میں 12 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
یہ جھڑپیں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں دو ہفتے قبل ایک حملے میں چھبیس افراد کی ہلاکت کے بعد ہوئی ہیں۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر الزام عائد کیا تھا، جیسے پاکستان مسترد کرتا ہے۔ یاد رہے کہ 1947ء میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد برصغیر کی تقسیم کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔
حالیہ حملے 2019 کے ان بھارتی فضائی حملوں سے زیادہ شدید قرار دیے جا رہے ہیں، جب نئی دہلی نے ایک خودکش بمبار کے حملے میں اپنے سکیورٹی فوسز کے چالیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے اندر فضائی حملے کیے تھے۔ بھارتی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مرتبہ ’’دہشت گردی کے کیمپوں‘‘ کو تباہ کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ نو کارروائیاں ’’منظم، نپی تلی اور غیر اشتعال انگیز‘‘ تھیں۔ بھارتی فوج کے مطابق، ’’انصاف کیا جا چکا ہے۔‘‘
حساب چکانے میں دیر نہیں لگائیں گے، پاکستانی وزیر دفاع

دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یہ حملے اندرون ملک مقبولیت بڑھانے کے لیے کیے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’جوابی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ ہم حساب چکانے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔‘‘ پاکستانی فوج کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں۔ جبکہ ایک بھارتی سکیورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارت کے تین جنگی طیارے اس کے اپنے ہی علاقے میں گر کر تباہ ہوئے ہیں۔