کالمزسید عاطف ندیم

21ویں صدی کی سب سے بڑی فضائی جنگ….سید عاطف ندیم

21ویں صدی کا سب سے بڑا ڈرون حملہ جس میں 77 جدید ڈرونز شامل تھےمکمل طور پر ناکام ہو گیا

21ویں صدی کی ایک بےمثال اور فیصلہ کن فضائی جنگ میں پاکستان نے تکنیکی مہارت، دفاعی برتری اور جارحانہ حکمتِ عملی کے امتزاج سے بھارت کے خلاف تاریخی فتح حاصل کر لی۔ BVR (Beyond Visual Range) ٹیکنالوجی سے لیس 112 پاکستانی طیاروں نے نہ صرف دشمن کے طیاروں کو پسپا کیا بلکہ اپنی صفوں میں ایک بھی نقصان برداشت کیے بغیر میدان مار لیا۔ اس جنگ میں بھارت کے کم از کم 5 طیارے تباہ کیے گئے، جن میں تین جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے۔
حیران کن طور پر، بھارت کی جانب سے کیا گیا .21ویں صدی کا سب سے بڑا ڈرون حملہ جس میں 77 جدید ڈرونز شامل تھےمکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ پاکستانی فضائیہ اور دفاعی نظام نے ان تمام ڈرونز کو یا تو فضا میں ہی تباہ کر دیا یا پھر ان کے مشن کو نرم ہدف کے ذریعے ناکارہ بنا دیا۔
بھارت نے 9 مختلف مقامات پر حملے کیے، جن میں سے بیشتر کو قبل از وقت روک دیا گیا یا غیر مؤثر بنا دیا گیا۔ جواب میں پاکستان نے 26 اہداف کو نشانہ بنایا، جس سے نہ صرف تکنیکی برتری ظاہر ہوئی بلکہ مشرقی و مغربی محاذوں پر بیک وقت لڑنے کی صلاحیت پر بھی اعتماد بڑھا۔
ایک اور اہم پہلو برہموس اور دیگر ہائپرسونک میزائل حملوں کے خلاف کامیاب دفاع تھا۔ بیشتر ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی ان میزائلوں کو پاکستانی AD (ایئر ڈیفنس) نظام نے تباہ کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی ملک نے ہائپرسونک رفتار والے میزائلوں کو عملی میدان میں روکا۔
ماہرین کے مطابق، پاکستان کی جانب سے نہ صرف جارحانہ حکمتِ عملی اپنائی گئی بلکہ اس نے روایتی ردعمل سے دو درجے بلند ہو کر ایک نئے سٹریٹیجک معیار کی بنیاد رکھی۔ یہ معرکہ پاکستان کے لیے دفاعی و عسکری میدان میں ایک بڑی کامیابی اور خطے کے طاقت کے توازن میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان بھارت جنگ کا امکان
حالیہ دنوں میں پاک بھارت تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں دنیا بھر کی نگاہیں ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے ان دو ایٹمی طاقتوں والے ممالک پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ تاہم بین الاقوامی مبصرین، اقوام متحدہ، اور عالمی طاقتوں نے متفقہ طور پر خبردار کیا ہے کہ "پاک بھارت جنگ کے امکانات کو ختم کرنا ناگزیر ہے، کیونکہ دنیا ایک اور بڑی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔”
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 21ویں صدی کے پیچیدہ جیوپولیٹیکل منظرنامے میں جنوبی ایشیا میں کسی بھی جنگ کا آغاز صرف خطے کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے امن، معیشت اور سلامتی کے لیے ایک شدید خطرہ ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، جنوبی ایشیا میں امن کی راہیں صرف سفارت کاری، عوامی رابطے، اور اقتصادی تعاون سے ہی ممکن ہیں۔ موجودہ عالمی حالات، ماحولیاتی چیلنجز، اور معاشی دباؤ کے تحت دنیا کسی نئی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان کی بین الاقوامی مطابقت
پاکستان کی معاشی ترقی اور مستقبل کے امکانات کی وجہ سے آئی ایم ایف نے قسط نہیں روکی تمام بین الاقوامی طاقتوں نے مداخلت کی۔ بھارت نیٹ سیکورٹی فراہم کنندہ کا درجہ قائم کرنے میں ناکام رہا۔ زیادہ تر ممالک پاکستان کے لیے کھڑے تھے – چین اور ترکی اور خلیج اور کے ایس اے اور بہت کچھ۔ ایک ملک نے واضح طور پر بھارت کا ساتھ دیا یعنی اسرائیل (ایک نظریاتی طور پر مسلم مخالف ریاست) مغرب غیر جانبداری کی طرف زیادہ تھا بجائے اس کے کہ بھارت کی طرف سے مغرب کے پیارے کے طور پر تیار کیا گیا تصور۔ عالمی برادری کو بھارتی حماقتوں کی قیمت پر احساس ہوا کہ بڑھوتری ایک بہت خطرناک کاروبار ہے اور اس طرح کی مہم جوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ریورسرڈ اف-پاک‘ کا ابھرتا ہوا منظرنامہ
جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست ہمیشہ سے ایک نازک توازن کا شکار رہی ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کے تعلقات خطے کی مجموعی سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ بھارت نے کئی دہائیوں تک کوشش کی کہ عالمی سطح پر اسے پاکستان کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے ایک پالیسی جسے ماہرین "ڈی-ہائفینیشن” (De-hyphenation) کہتے ہیں۔ تاہم، یہ عمل مکمل طور پر آسان نہ تھا اور بھارت کو اس میں کامیابی حاصل کرنے میں برسوں لگے۔
ڈی ہائفینیشن: بھارت کی اسٹریٹجک خواہش
ڈی-ہائفینیشن کی پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ عالمی طاقتیں، خصوصاً امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیائی ممالک، بھارت کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھیں بلکہ اسے انفرادی اور عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر تسلیم کریں۔ اس پالیسی کے تحت بھارت نے اپنی معاشی ترقی، دفاعی معاہدات اور عالمی سفارت کاری کو اجاگر کیا، جبکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سیکیورٹی خدشات کی سطح پر محدود کرنے کی کوشش کی۔
"ریورسرڈ اف-پاک”: ایک نئی اسٹریٹجک حقیقت
تاہم حالیہ برسوں میں ایک دلچسپ جیوپولیٹیکل تبدیلی سامنے آئی ہے، جسے مبصرین "ریورسرڈ اف-پاک” (Reversed Af-Pak) کے نام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس اصطلاح کا مطلب ہے کہ ماضی میں جہاں پاکستان کو افغانستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا تھا (Af-Pak)، اب بھارت کے کشمیر میں سخت گیر اقدامات، سرحدی جھڑپیں، اور چین کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں نے پاکستان کو ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں مرکزیت دے دی ہے — اور اس بار بھارت کے سیاق میں۔
پاکستان، جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی مسئلے کے طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کی، اب دیکھ رہا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ یہ ایک طرح سے ’مسئلہ کشمیر کا دوبارہ زندہ ہونا‘ تو نہیں، مگر ایک خاموش سفارتی واپسی ضرور ہے، جو بھارت کی ڈی-ہائفینیشن پالیسی کو کمزور کر رہی ہے۔
چین، ایران، اور وسطی ایشیا کی تبدیلیاں
بھارت کی مغربی سرحدوں پر چین کے اثرورسوخ، ایران کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی، اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے بدلتے رجحانات نے جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان نے اقتصادی راہداری (CPEC)، علاقائی اتحادوں، اور روس و چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات سے اپنی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
نتیجہ: مستقبل کی جہتیں
حالیہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ علاقائی جغرافیائی سیاست سادہ خطوط پر نہیں چلتی۔ بھارت کی خواہش رہی کہ دنیا اسے پاکستان سے الگ دیکھے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ خطے کی سلامتی، معیشت، اور انسانی حقوق کی صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان کو نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں۔ "ریورسرڈ اف-پاک” دراصل اس بات کی علامت ہے کہ جغرافیائی سیاست میں وقت، زاویے، اور مفادات تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔
ڈی-ہائفینیشن کی مکمل کامیابی شاید ایک سراب ثابت ہو رہی ہے، جبکہ مسئلہ کشمیر چاہے براہِ راست نہ سہی عالمی شعور میں پس پردہ زندہ ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button