پاکستاناہم خبریں

اب کہاں ہے ملالہ یوسفزئی؟ بلوچوں کے حق میں آواز بلند کرنے والی نوبیل انعام یافتہ شخصیت بھارت کی حالیہ جارحیت پر کیوں خاموش؟

سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر انسانی حقوق کی بات ہے تو کیا یہ اصول صرف مخصوص علاقوں یا اقوام پر لاگو ہوتا ہے؟

(سید عاطف ندیم-پاکستان): ملالہ یوسفزئی — وہ نام جو پاکستان میں تعلیم کی علمبردار، دہشتگردی کے خلاف استقامت کی علامت، اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی آواز کے طور پر پہچانا جاتا ہے — ایک بار پھر عوامی بحث کا مرکز بن چکی ہیں، لیکن اس بار وجہ ان کی خاموشی ہے۔ بھارت کی حالیہ مبینہ جارحیت، لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی، اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملوں کے تناظر میں سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال زور پکڑ گیا ہے: "اب کہاں ہے ملالہ؟”
بلوچوں کے لئے آواز، لیکن بھارتی اقدامات پر سکوت؟
ملالہ ماضی میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی سطح پر آواز بلند کرتی رہی ہیں، جس پر کئی پاکستانی حلقوں میں ان پر تنقید بھی ہوئی۔ ان کے بیانات کو بعض اوقات پاکستان مخالف ایجنڈے سے جوڑ کر پیش کیا گیا، اگرچہ ملالہ ہمیشہ اپنی سوچ کو انسانی حقوق اور تعلیم کے تناظر میں پیش کرتی رہی ہیں۔
تاہم موجودہ صورتِ حال میں جب بھارت پر پاکستان میں حملوں اور جارحانہ کارروائیوں کا الزام ہے، ملالہ کی خاموشی بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ حیرت بن رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر انسانی حقوق کی بات ہے تو کیا یہ اصول صرف مخصوص علاقوں یا اقوام پر لاگو ہوتا ہے؟
انسانی حقوق کی یکطرفہ ترجمانی؟
بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیمیں اکثر ایک مخصوص بیانیہ اپناتی ہیں۔ اس بیانیے میں بعض اوقات ریاستی مفادات، مغربی میڈیا کی ترجیحات، اور جغرافیائی سیاست کا عمل دخل نمایاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فلسطین، کشمیر، یا پاکستان میں کسی واقعے پر ردِ عمل سامنے نہیں آتا، تو عوامی اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ملالہ ایک عالمی شخصیت ہیں، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے انسانی المیے پر غیر جانبدار آواز بلند کریں گی — چاہے وہ بلوچستان ہو، کشمیر، یا غزہ۔
کیا خاموشی سیاسی حکمتِ عملی ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملالہ اب صرف ایک سماجی کارکن نہیں بلکہ ایک عالمی برانڈ ہیں، جن کی ہر بات کا اثر ہوتا ہے۔ ایسے میں ان کی خاموشی یا بیان نہ دینا بعض اوقات شعوری فیصلہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ عالمی طاقتوں یا اہم شراکت داروں سے تعلقات متاثر نہ ہوں۔ تاہم یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا عالمی شہرت یافتہ شخصیت کے لیے اصولی مؤقف پر خاموشی اختیار کرنا درست ہے؟
نتیجہ: آواز وہی معتبر، جو ہر جگہ بلند ہو
انصاف، امن اور انسانی وقار کی جنگ صرف مخصوص خطوں یا اقوام تک محدود نہیں ہو سکتی۔ اگر ملالہ جیسے افراد اور ادارے واقعی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں تو انہیں ہر جگہ، ہر مظلوم، اور ہر ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے — چاہے وہ کسی بڑی طاقت کے خلاف ہو یا کسی مقبول ریاست کے۔
ملالہ کی خدمات اور قربانیوں سے انکار نہیں، لیکن سوال اب یہی ہے کہ "اگر خاموشی بھی پالیسی ہے، تو وہ کن اصولوں پر مبنی ہے؟”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button