
مودی ہوش کے ناخن لے…..ناصف اعوان
مودی تم کیسے انسان ہو کہ لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہو مہذب بھی بنتے ہو مگر حرکتیں غیر مہذبانہ کرتے ہو جس سے لگتا ہے کہ تم ابھی جہالت کے دور میں رہ رہے ہو
مودی ایک تو اس علاقے کا ڈان بننا چاہتا ہے دوسرے اس کی طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے اور اسے قائم رکھنے کی شدید خواہش ہے لہذا وہ ہمارے اوپر میزائل برسا کر اپنے لوگوں کو بڑا دلیر اور عقل مند ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اب روایتی دور نہیں رہا ۔ہر کسی کو صورت حال سے متعلق کافی حد تک آگاہی ہوتی ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بندے کا پتر بن کر رہے ۔وہ جن طاقتوں کی شہ پر ”پنگا“ لے رہا ہے انہوں نے یہاں نہیں رہنا ‘ رہنا یہیں کے لوگوں نے ہے مگر وہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اسے کیوں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جو کام محبت پیار اور گفتگو سے ہو سکتا ہے وہ لڑائی سے نہیں ہوتا ۔لڑائی کے بعد بھی تو مسئلہ بیٹھ کر ہی حل کیا جاتا ہے۔
مودی کا اگر خیال ہےکہ وہ پاکستان کو جنگ کرکے فتح کر لے گا تو یہ اس کی بھول ہے اسے چاہیے کہ وہ سٹرائیکوں کو روکے اور بات کرے ۔اگر وہ ہمارے بارے برا سوچتا ہے تو ہم بھی ویسا ہے سوچیں گے اب جب پاکستان نے اس کی فوجی تنصیبات اور دہشت گردی کے مراکز اڑا کر رکھ دئیے ہیں تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔
مودی تم کیسے انسان ہو کہ لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کرنا چاہتے ہو مہذب بھی بنتے ہو مگر حرکتیں غیر مہذبانہ کرتے ہو جس سے لگتا ہے کہ تم ابھی جہالت کے دور میں رہ رہے ہو دوسروں کو کمتر تصور کر رہے ہو ۔اصل میں تم اور تمھارے ساتھی سٹیٹس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لہذا تم سب موجودہ سفاک نظام کے ذریعے غریب عوام کا استحصال کرنا چاہتے ہو کر رہے ہو۔ بھارتی عوام کو چاہیے کہ وہ اس درندہ صفت حکمران کو جارحانہ عزائم کی تکمیل سے روکیں اور اس سے پوچھیں کہ ملک میں ایک طبقہ ڈھیروں دولت کا مالک اور ریاستی وسائل پر قابض کیوں ہے اور وہ غربت کی آکاس بیل میں لپٹے ہوئے کیوں ہیں ۔مودی سے اس کی جماعت کے علاوہ دوسرے لوگ یہ بھی پوچھیں کہ اسے امن کیوں پسند نہیں؟ خوشحالی وہ کیوں نہیں چاہتا اور اپنے ہمسایوں سے بہتر انداز سے رہنے کا سلیقہ اسے کیوں نہیں آیا ؟
مودی اسرائیل اور امریکا کا آلہ کار بن کر اس لئے بھی امن برباد کر رہا ہے کہ اس کے پشتی بان اس سمیت چین کو معاشی طور سے نقصان پہنچانے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ چین نے ایک ارب لوگوں کو غربت سے نجات دلائی ہے۔
مودی کو چاہیے کہ وہ جنگ کے بجائے غربت کے خاتمے کے لئے حرکت میں آئے وہ اسلحہ جمع کرنے کی دوڑ کو ختم کرے۔ ڈھیروں اکٹھا کیا گیا بارود اس کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی معیشت قدرے مضبوط ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پنگے لیتا پھرے اسے تو چین کی تقلید کرنا چاہیے کہ اس نے اپنی ساری توجہ ترقی پر مرکوز کر رکھی ہے وہ بلا وجہ کسی سے جھگڑا نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ اس نے دنیا کو معاشی اعتبار سے مات دے دی ہے مگر اسرائیل اور امریکا ایسے ممالک اُسے تنزلی کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنی مخصوص سوچ وفکر سے صورت حال کا مقابلہ کر رہا ہے اور بڑے بڑے گمبھیر مسائل کو حل کرتا جاتا ہے مگر احمق مودی پاکستان پر چڑھائی کرنے کو ترقی و خوشحالی
سمجھ رہا ہے لہذا اس نے آتش و آہن کا کھیل شروع کر دیا ہے۔ اس سے وہ اپنی ساکھ خراب کر رہا ہے جس کی سمجھ اسے جنگ ہارنے کے بعد آئے گی۔ فی الحال وہ ہمارے اوپر اسرائیل کے بنے ہوئے ڈرون اڑا رہا ہے اب اس نے براہموس میزائل بھی پھینکنے کا آغاز کر دیاہے راولپنڈی لاہور اور شورکوٹ کے ہوائی اڈوں پر اس نے یہ میزائل داغے ہیں مگر انہیں تباہ کر دیا گیا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ امریکا پاکستان کو صبر کی تلقین کر رہا ہے مگر اب ایسا نہیں ہو سکتا ۔بھارت کو موثر جواب دیا جانے لگا ہے کیونکہ ہم نے اسی دن کے لئے تیاری کر رکھی ہے۔ غلامی کی زندگی ہمیں قبول نہیں مگر معذرت کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو مصلحتیں لے بیٹھی ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان وزیر اعظم ہوتا تو یا کم از کم جیل سے باہر ہوتا تو جزبات کا ایک طوفان ہوتا۔ بھارتی تجزیہ کار ہمارا مزاق اڑا رہے ہیں اور حکومت بارے کہہ رہے ہیں کہ فارم سینتالیس والے کیسے جنگ لڑ سکتے ہیں جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ پوری قوم اپنی فوج کے پیچھے کھڑی ہے اور وہ اس کا ثبوت بھی پیش کر رہے ہیں۔
بہر حال یہ بات طے ہے کہ بھارت جس نے امریکی اشارے پر اس خطے کا امن تہہ و بالا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے مگر اسے ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ وہ آئندہ کبھی جنگ کا نام نہیں لے گا کیونکہ چین نے بھی اس کے عزائم کے پیش نظر تیاری مکمل کر لی ہے لہذا مودی کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں وہ ہمارا بند کیا گیا پانی کھول دے (ویسے وہ زیادہ دیر بند نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے ڈیموں کی دیواریں ٹوٹ جائیں گی) وگرنہ حالات کا خود ذمہ دار ہو گا کیونکہ پانی ہماری زندگی ہے اگر وہ ہمیں بھوکا پیاسا رکھے گا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہمیں اپنی بقا و سلامتی کا پورا حق حاصل ہے ۔یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد
واضح طور سے کہا تھا کہ وہ جنگوں کو رکوائیں گے غزہ میں جنگ بندی ہوئی بھی مگر اب وہ دوبارہ شروع ہو چکی ہے یمن میں وہ خود صف آرا ہے۔ پاک بھارت کی صورت حال پر وہ جو مثبت کردار ادا کر سکتا تھا نہیں کیا گیا یعنی وہ موجودہ صورت حال کے آگے بڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ہم حیران ہوئے تھے جب ٹرمپ نے امن کی خواہش کا اظہار کیا تھا وگرنہ تو امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سے خیر کی خبر کبھی نہیں آئی اس نے کمزور ممالک کی حکومتوں کو بنوایا بھی اور گرایا بھی لہذا ان کے عوام اس کی ذہنیت کو بخوبی جان چکے ہیں اس لئے وہ اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ امن خوشحالی کی بات کریں جنگوں کو ختم کریں ۔مودی کو ہمارا مشورہ ہے کہ ” کاواں دے آکھے ڈھگے نئیں مردے” لہذا وہ اپنے عوام کو سکھ دے اذیت نہیں کہ سوائے آر ایس ایس کے کسی کو اسلحہ و بارود کے ڈھیروں سے دلچسپی نہیں لہذا وہ سفید جھنڈا لہرائے اور خطے کی فضاؤں میں پیار و محبت کا نغمہ بلند کرے اسی میں اس کی بھلائی و بقا ہے !