یورپ

یورپ کی حفاظت کے لیے فرانس کی پیشکش، برلن کا رد عمل

فرانس نے نا صرف دنیا کے جوہری طاقتوں کے کلب میں مستقل جگہ حاصل کر لی بلکہ اب یہ اس ملک کی طاقت کا ایک اہم آلہ بن چُکا ہے

فرانس 60 سال قبل پہلی بار اپنے جوہری میزائل منظر عام پر لایا تھا۔ چھ عشروں بعد فرانسیسی صدر ماکروں آج نا صرف اپنے ملک بلکہ پورے یورپ کے محافظ بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم اس پیشکش کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

بعد کی دہائیوں میں فرانس کی یہ  جوہری صلاحیت اس کی دفاعی پالیسی کا مرکز بن گئی۔ مگر مکمل طور پر آزاد اور خالصتاً قومی کنٹرول میں۔  اس طرح فرانس نے نا صرف دنیا کے جوہری طاقتوں کے کلب میں مستقل جگہ حاصل کر لی بلکہ اب یہ اس ملک کی طاقت کا ایک اہم آلہ بن چُکا ہے۔ تاہم یہ فرانس کے دفاعی بجٹ کے لیے بہت گراں ہے۔ اس کی دیکھ بھال اور جدت کاری پر سالانہ اخراجات فرانس کے دفاعی بجٹ کا 10 فیصد بنتے ہیں۔ مزید یہ کہ قومی قرضوں کی وجہ سے بھی یہ بہت بڑا بوجھ ہے۔

جرمن فوج لیتھوانیا میں تعینات کی جائے گی

فرانسیسی نیوکلیئر فورس ہمیشہ سے خود مختار، کم سے کم اور دفاعی مقاصد کے نظریے کی حامل رہی ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کے پہلے وزیر اعظم شارل ڈی گال، جو بعد میں ملک کے صدر بن گئے تھے، کے وقت سے اب تک اس نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ فرانس کے ”اہم مفادات‘‘ کے تحفظ کے لیے ہے جو ایک مبہم اصطلاح ہے کیونکہ ہنگامی صورت حال میں، کیا یورپی شراکت دار اس میں شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔  نظریے کے مطابق،  جوہری ہتھیاروں کا استعمال صرف اپنے دفاع کی انتہائی صورتوں میں مقصود ہے اور  اس کے فیصلے کا اختیار صرف جمہوریہ کے صدر کے پاس ہے۔

ستمبر 1963 ء مغربی جرمنی کے چانسلر کونراڈ آڈیناور فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال کے ساتھ پیرس میں
ڈی گال سے لے کر سارکوزی تک فرانسیسی سربراہان مملکت نے ہمیشہ یورپی شراکت داری اور مشترکہ مفاد کی بات کی

ڈی گال سے لے کر سارکوزی  تک فرانسیسی سربراہان مملکت نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ان اہم مفادات کی یورپی جہت بھی ہے۔  تاہم ان کے بیانات کی حیثیت علامتی ہی رہی۔ ایٹم بموں کو بانٹنے کی حقیقی خواہش ہمیشہ غیر واضح رہی، کم از کم عوامی سطح پر۔ اور موجودہ صدر ایمانویل ماکروں کے برسر اقتدار آنے تک۔

ایک اہم موڑ

ایمانویل ماکروں کا دور اس ضمن میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2017 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد بظاہر فرانس کی جوہری  اسٹریٹیجی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن اسے یورپی جہت دے دی گئی۔ فروری 2020 ء میں ماکروں نے فرانس کے سینئر فوجی افسروں کے اسٹاف کالج   École de Guerre میں ایک اہم تقریر میں کہا کہ فرانسیسی ”جوہری مزاحمتی صلاحیت‘‘ یورپ کی سلامتی کے لیے بھی کار فرما ہے۔ ماکروں نے ساتھ ہی یورپی شراکت داروں کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی پیشکش کی۔ اسے برلن میں بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا، اس خدشے کی وجہ سے کہ اس سے یورپ کے تحفظ کے امریکی وعدے کو نقصان پہنچے گا۔

جون 2023ء میں فرانسیسی صدر ماکروں پیرس میں یورپی ایئر اینڈ میزائل ڈیفنس کانفرنس میں یورپی یونین کے وزارائے دفاع کا خیر مقدم کرتے ہوئے
ماکروں نے اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی پیشکش کی ہے

فرانس کی اصل پیشکش کیا ہے؟

فرانس ایک عام یورپی ایٹمی بم کی تجویز پیش نہیں کر رہا، بلکہ یورپی طاقتوں کو جوہری ذمہ داریوں میں برابر کی شراکت داری پر قائل کرنا چاہتا ہے۔ اس تجویز کے ساتھ ہی ماکروں نے  اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی جو پیشکش کی، اس کے تحت  یورپی شراکت داروں کو فرانسیسی جوہری نظریے کو بہتر طور پر سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ  فرانس کے جوہری ”اسٹریٹجک ابہام‘‘ کو دور کر سکیں اور ان طاقتوں کو مختلف منظرناموں پر غور کرنے کا موقع ملے اور وہ  مبصر کا کردار ادا کرتے ہوئے مشقوں میں حصہ لیں۔ 2024ء کے اوائل میں، فضا میں جہازوں کو ایندھن فراہم کرنے والے ایک اطالوی طیارے نے فرانسیسی مشق میں حصہ لیا۔

ہیروشیما، ناگاساکی: ایٹمی قیامت کو ستّر سال بیت گئے

تاہم، طویل نظریاتی بحث تیزی سے زور پکڑتی جا رہی ہے۔ منگل کو ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ماکروں نے کہا کہ پولینڈ نے اپنی سرزمین پر فرانسیسی  جوہری  ہتھیار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ جرمنی کے امریکہ کے ساتھ جوہری اشتراک کے مترادف ہے۔

یاد رہے کہ جرمنی کے صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے ”بیوشل‘‘ کے علاقے میں امریکی جوہری بم موجود ہیں اور ہنگامی صورت حال میں، جرمن فوجی طیاروں کے ذریعے انہیں اپنے ہدف تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

فضا سے لی گئی  ’’بیوشل‘‘ کے علاقے کی تصویر
’’بیوشل‘‘ کے علاقے میں امریکی جوہری بم موجود 

یورپ اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو

فرانس کے پاس اس وقت تقریباً 300 جوہری وار ہیڈز ہیں۔ یہ قومی دفاعی یا مزاحمتی مقاصد کے لیے کافی ہیں، لیکن تمام یورپی تحفظ کے لیے کافی نہیں۔ ڈیلیوری سسٹم، بیلسٹک میزائل آبدوزیں اور ایئر لانچ سسٹم فرانسیسی مشن پروفائلز کے مطابق بنائے گئے ہیں۔

تاہم فرانسیسی صدر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ان کا ملک دوسروں کی حفاظت کے اخراجات نہیں اُٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ”ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہم سے نہیں لیا جائے گا۔ حتمی فیصلہ فرانس کے پاس رہے گا۔‘‘

فرانسیسی صدر کے مطابق جو کوئی بھی اس کے پاس موجود جوہری تحفظ کی چھتری تلے آنا چاہتا ہے اسے سیاسی، لاجسٹک اور مالی طور پر حصہ لینا ہوگا۔

تاہم ماکروں نے واضح طور پر، جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر شراکت داروں کی جانب سے کنٹرول یا تعاون کے فیصلے سے انکار کیا ہے۔ یعنی یہ ایک طرح سے موجودہ جوہری اشتراک جیسا ہی ہے۔ نیٹو کا نیوکلیئر پلاننگ گروپ (این پی جی)  جوہری  معاملات پر غور وخوض تو کرتا ہے، لیکن فیصلہ نہیں کرتا۔ جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے بارے میں حتمی فیصلہ مکمل طور پر امریکی صدر کے پاس ہوتا ہے اور یوں اس وقت یہ اختیار ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button