
سرگودھا میں احمدی ڈاکٹر کا بہیمانہ قتل: مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں جماعت احمدیہ کے تین افراد کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے
(سرگودھا-خصوصی نمائندہ):پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی ڈاکٹر کو جمعہ کے روز ایک نجی ہسپتال میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مقتول کی شناخت ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے نام سے ہوئی ہے، جو ایک معروف طبی ماہر اور ہمدرد انسان کے طور پر جانے جاتے تھے۔
واقعے کی تفصیلات
مقامی پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق، یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک نامعلوم مسلح شخص ہسپتال میں داخل ہوا اور ڈاکٹر شیخ محمد محمود پر فائرنگ کر دی۔ حملہ آور فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہو گیا جبکہ ڈاکٹر محمود کو فوری طور پر طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی، مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔
جماعت احمدیہ کی تصدیق اور مؤقف
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے وائس آف جرمنی سے بات کرتے ہوئے واقعے کی تصدیق کی اور اسے مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیزی کا تسلسل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شیخ محمد محمود کو گزشتہ کچھ عرصے سے احمدیہ مخالف گروہوں کی جانب سے سنگین نوعیت کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کے باوجود مقامی حکام کی جانب سے خاطر خواہ حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔
عامر محمود کے مطابق، صرف گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں جماعت احمدیہ کے تین افراد کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے، جو اس بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم برداشت کی واضح عکاسی ہے۔
مقتول کے اہل خانہ اور سماجی ردِعمل
ڈاکٹر شیخ محمد محمود کے سوگواران میں ان کی اہلیہ، دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمود ایک پرامن، درد دل رکھنے والے اور پیشہ ورانہ فرائض ایمانداری سے ادا کرنے والے فرد تھے۔ ان کے قتل سے نہ صرف خاندان، بلکہ طبی برادری اور احمدی کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے پر مختلف سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان نے بھی گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ کئی صارفین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی کرے اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدگی دکھائے۔
انصاف کا مطالبہ اور حکومتی ردعمل
تاحال مقامی انتظامیہ یا اعلیٰ حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے نمائندے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس واقعے کی فوری، غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کروائے، اور مجرم کو قانون کے مطابق کیفرِ کردار تک پہنچائے۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر مقامی و بین الاقوامی حلقے پہلے ہی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ریاست ایسے جرائم پر واضح اور سخت مؤقف اختیار نہیں کرتی، اس قسم کی پرتشدد انتہاپسندی کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔