کالمزناصف اعوان

شعلے نہیں پھول !……..ناصف اعوان

یہ درست ہے کہ چند مقامات پر میزائل و ڈرون گرے جس سے تھوڑا بہت نقصان ہوا مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فتح کر لیا ہے

آج جب ہتھیلی پے سرسوں جمانے کا دور ہے تو بھی اہل اقتدار لوگوں کو بیوقوف بنانے پر تُلے ہوئے ہیں مگر وہ بن نہیں رہے لہذا انہیں چاہیے کہ وہ سیدھی اور صاف حکمرانی و سیاست کریں اس سے انہیں بہت سکون ملے گا ان کی ساکھ بہتر ہوسکتی ہے ان کے اقتدار کو بھی طوالت مل سکتی ہے عین ممکن ہے کہ ان کی آنے والے نسلوں کو بھی حکمرانی کا مزہ لوٹنے کا موقع مل جائے مگر شاید انہیں اطمینان ‘ لذت اور آسودگی مبالغہ آرائی یا دوسرے لفظوں میں اپنے کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ملتی ہے لہذا وہ اسی حوالے سے سوچ بچار کرتے ہیں ؟
حالیہ جنگی صورت حال بارے بھارتی میڈیا کہہ رہا تھا کہ ان کی فضائیہ نے پاکستان کو بے حد و حساب نقصان پہنچا دیا ہے بس اب زمینی کارروائی کرکے اس پرقبضہ کرنا باقی رہ گیا ہے ۔اس کے بولے جانے والے جھوٹ پر ہمارے بچے تک جو ٹچ موبائل رکھتے ہیں حیران ہو کر رہ گئے اور اس کا مزاق اڑانے لگے کیونکہ ان کے سامنے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ۔یہ درست ہے کہ چند مقامات پر میزائل و ڈرون گرے جس سے تھوڑا بہت نقصان ہوا مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فتح کر لیا ہے ۔
اب جب حالات کی گرد بیٹھی ہے تو بھارتی عوام کو بھی معلوم ہوا ہے کہ مودی کی حکومت نے دروغ گوئی سے ان کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہیں لہذا اب وہ اس کی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ جنگ کے شعلے بھڑکا کر انتخابات میں کامیابی حاصل کر نا چاہتا ہے ۔اسے عوام کی خدمت کرکے ہی کوئی کامیابی مل سکتی ہے اس طرح کی حرکات سے وہ نفرت کا شکار بن سکتا ہے‘ سکتا کیا بن گیا ہے ۔ کیونکہ موجودہ دور میں عوام جنگی جنون نہیں سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں لہذا انہیں اپنا گرویدہ و ہمنوا بنانے کے لئے مسائل سے نجات چاہیے۔
ایسا نہیں کیا جاتا تو بھارت کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ پڑ رہا ہے بہت سے ممالک اس سے دور جا چکے ہیں اگرچہ اسرائیل اور امریکا اس کی پشت پر کھڑے ہیں کوئی ایک آدھ اور ملک بھی در پردہ اس کی پیٹھ سہلا رہا ہو گا مگر وہ سب کچھ بدلے بدلے سے بھی لگ رہے ہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ اب پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ممکن نہیں اس نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ چین کے تعاون سے نہ صرف جنگی ہتھیار حاصل کرکے اپنا دفاع مضبوط بنا چکا ہے بلکہ اپنی معیشت کو بھی سنبھالا دے رہا ہے اس سے واضح ہے کہ پاکستان امریکی حصار سے باہر آرہا ہے اس کو اب روایتی اسلحہ خریدنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ چین کے تعاون سے اس نے اپنی فضائی قوت کالوہا منوا لیا ہے لہذا مودی سرکار کو خوامخواہ سینگ نہیں اڑانے چاہیں اس سے کچھ نہیں ملنے والا ۔اگر وہ اپنے عوام کو پہلے ہی صاف بتا دیتا کہ رافیل کو گرایا جا چکا ہے تو اسے شاید زہادہ عوامی نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑتا مگر اس نے اس واقعہ سے انحراف کیا ۔ اب جب سوشل میڈیا کے ذریعے سچ سامنے آیا ہے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنس رہا ہے۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر اس نے ساری حدیں پار کر لی ہیں اور پاکستان پر دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اسے ضرور سبق سکھائے گا جبکہ پاکستان پوری طرح مستعد ہے اور اس کی ہر حرکت کا مکمل جواب دینے کی صلاحیت و استعداد رکھتا ہے ۔ یہاں ہم یہ عرض کریں گے کہ جنگ الم و مصائب اور مشکلات کا حل نہیں اس میں عوام کی بھلائی بالکل نہیں بربادی ہی بربادی ہے ۔مودی‘ جو ہے تو اذیت پسند مگر پھر بھی اگر اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ اچھا کرنے کی اس کی نیت ہے تو وہ انہیں کسمپرسی و تکلیف دہ زندگی سے چھٹکارا دلائے ۔بھارت کے سیکولر ریاست ہونے کا تشخص بحال کرے ۔امن پیار کی بات کرے ہمسائیوں سے تجارت کرے پنگا نہ لے اس کے ہاتھ سوائے رسوائیوں کے کچھ نہیں آئے گا مگر وہ پاگل ہو چکا ہے ۔ وہ خود کو بڑا ذہین اور عقل مند سمجھ رہا ہے لہذا ملک کے اندر اور باہر متشددانہ طرز عمل اختیار کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔خون بہانے میں اسے تسکین ملتی ہے لہذا کبھی وہ پاکستان سے اور کبھی چین سے چھیڑ خانی کرتا ہے اور اپنے عوام کا مسقبل توسیع پسندی میں ڈھونڈ رہا ہے مگر سوشل میڈیا اب اس کی مکاریاں اور عیاریاں سب کو دکھا اور بتا رہا ہے لہذا اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے عوام کو اس کے پاگل پن کا پتا چل چکا ہے لہذا وہ اس کے قریب ہونے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ وہ (مودی ) پاکستان سے الجھنے کے بعد اب چین سے بھی الجھ بیٹھا ہے مگر چین اب اس سے ایسی ہتھ جوڑی کرے گا کہ اسے نانی یاد آ جائے گی کیونکہ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی آچکی ہے جو فضا زمین اور سمندر پر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہے لہذا یہ جو اس نے چین کے ساتھ پشت پنگا لینے کا آغاز کیا ہے اسے بہت جلد دن میں تارے نظر آجائیں گے چین اس کے وسیع علاقے کو اپنے اندر ضم کر سکتا ہے اس کی بعض ریاستیں جہاں پہلے ہی ان میں شورش برپا ہے اس کے ساتھ مل سکتی ہیں مگر مودی کو اس کی پروا نہیں نجانے وہ کیا سوچ کر اس سے دست وگریباں ہو رہا ہے مگر اسے جلد ہی اپنی ہٹ دھرمی اور حماقت کا احساس ہو جائے گا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا بدل رہی ہے طاقت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے جو طاقتیں کمزور ممالک کو ڈکٹیٹ کرتی تھیں ان کی سوچ بدل رہی ہے لہذا وہ جنگی ماحول کو پیدا کرنے سے گریز کریں گی وہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ دور جنگوں کا نہیں عوامی دکھوں کو ختم کرنے کا ہے لہذا تمام حکمرانوں کو اپنے طور اطوار بدلنے کی ضرورت ہے وہ حقائق پسند بننے کی راہ پر گامزن ہوں عوام کو اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا دلانے کے لئے ہی اپنی ساری توانائیاں صرف کریں اور وہ سیاسی معاملات کو بھی دیکھیں کیونکہ اس وقت سیاست بڑی نازک صورت حال سے دو چار ہے جس پر اگر توجہ نہیں دی گئی تو وہ بھٹک سکتی ہے لہذا انتقامی سوچ کی جگہ صُلح و آشتی کا راستہ اختیار کرنا لازمی ہے ۔بالخصوص ہم ایک نئی سمت کی طرف بڑھنے لگے ہیں جس میں رہ کر ہم نے اپنی معیشت اور سماجیات کو دیکھنا ہے لہذا اس کے لئے اکثریت کی آواز پر کان دھرنا ہوں گے۔ جہاں ہم نے جنگی کیفیت کے دوران یک جہتی و یکانگت کا مظاہرہ کیا وہاں عام زندگی میں بھی اس کی اشد ضرورت ہے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button