کالمزحیدر جاوید سید

محبت،درگزر اور قانون کی بالادستی……حیدر جاوید سید

مودی اور بی جے پی نے پوری کوشش کی کہ مخالفین کے سوالات کو ہندو توا کے جنون سے کچل کر رکھ دیں لیکن سوال اٹھانے والے بھی باز نہیں آرہے

تین چار روز کشیدگی پھر آپریشن سندور اور جواباً آپریشن بنیان المرصوص اس کے بعد عارضی سیز فائر اور پھر 12 مئی کو 18 مئی تک کیلئے جنگ بندی پر اتفاق۔ وزیراعظم شہباز شریف کا ٹھنڈا ٹھار قوم سے خطاب اور 56 انچ کی چھاتی والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا جھوٹ، تکبر اور دھمکیوں سے بھرا خطاب بھی ہوچکا۔ اس کشیدگی، میزائل گردی، ڈرون بھونڈی اور دفاعی تنصیبات پرحملوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔
مودی سرکار جو منہ میں آئے کہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب کے دوران یہ کہہ کر آئینہ مودی کے سامنے رکھ دیا کہ ’’سیز فائر کے لئے بھارت نے امریکہ سے رابطہ کیا تھا پھر پاکستان سے بات کی گئی‘‘۔
جھوٹ، تکبر اور رعونت سے بھرے مودی کے دعوئوں کی بس اتنی زندگی تھی اب بھارت میں گودی میڈیا منہ دیکھانے کے قابل نہیں جبکہ ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ مودی سرکار اور گودی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے چبھتے سوالات کررہا ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ کشیدگی اور اگلے مراحل کے ساتھ سیز فائر تک مودی سرکار اور گودی میڈیا نے ہندو توا کو خوب ابھارا مائیک لوگوں کے منہ میں ٹھوس کر من پسند جواب چاہنے والے گودی میڈیا کے نمائندے اور یوٹیوبرز اصل میں اپنی خواہش سے عبارت جواب کو سوال کے طور پر پوچھ کر ہندو مسلم تضادات کو بڑھاتے رہے۔
مودی سرکار نے اپنی حکمت عملی سے مسلم وقف اوقاف بل سمیت چند مسائل سے وقتی طور پر لوگوں کی توجہ ہٹاکر جنگ اور انتہا پسندی کی فضا بنالی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوجاتی کے اندر سے نفرتوں کے اس کاروبار اور مودی حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید بھی ہوئی اڈانی نامی سرمایہ دار کی جانب سے بنگلہ دیش کو بجلی فرخت کرنے والا معاملہ ایک بار پھر اٹھا بی جے پی کے چند فنانسرز کی کرپشن کی داستانیں گلی محلوں سے پارلیمنٹ تک زیربحث آئیں۔
مودی اور بی جے پی نے پوری کوشش کی کہ مخالفین کے سوالات کو ہندو توا کے جنون سے کچل کر رکھ دیں لیکن سوال اٹھانے والے بھی باز نہیں آرہے حکومتی پالیسیوں ا ور جنگی جنون کو آڑے ہاتھوں لینے پر نیہا سنگھ راٹھور سمیت متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے اب تک سات صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا۔
واہگہ کے اِس اور کیا حالات ہیں؟ اِس سوال کا جواب ’’جلیبی‘‘ کی طرح سادہ اور سیدھا ہے۔
مودی کی ڈھمکیریاں اور دعوے اپنی جگہ لیکن عالمی میڈیا کچھ اور کہانی سنارہا ہے۔ تمہیدی سطور طویل ہوئیں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جنگ اور نفرت کا کاروبار بربادی کے سو کچھ نہیں د یتے دونوں پڑوسی ملکوں میں خطِ غربت سے نیچے بسنے والوں کی تعداد دونوں جانب پچاس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
یہ درست ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کے بغیر پاک بھارت کشیدگی ختم نہیں ہوسکتی۔ کشیدگی ختم نہ ہونے کی ایک اور وجہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا بھی ہے۔ چلیں مودی سرکار اور گودی میڈیا کی باتیں چھوڑیں ہم اپنی باتیں کرتے ہیں۔
مسائل ہمارے ہاں بھی خاصے گھمبیر اور سنگین ہیں مجموعی آبادی کا نصف حصہ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہا ہے۔ غربت بیروزگاری اور دوسرے مسائل سے چشم پوشی ممکن نہیں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت سال بھر سے ذرائع ابلاغ کو کمرشل سرکاری (رنگین) اشتہارات سے لبھارہی ہے اور ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ لُبھتا چلا جارہا ہے ہمارے ہاں تعلیم کاروبار ہے اور علاج معالجہ بھی۔ تعلیم صحت روزگار اور بنیادی شہری حقوق کے حوالے سے ہمارے ہاں قابل فخر کیا قابلِ ذکر صورتحال بھی نہیں۔
ہمارے پالیسی سازوں نے ملازمتیں تلاش کرنے والے لشکروں کو کارآمد بنانے کے لئے ابتدائی تعلیمی نصاب میں جدید خطوط پر تبدیلی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
انتہا پسندی کا کاروبار چلانے بڑھانے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں صوبوں اور وفاق کے درمیان بداعتمادی کا دوردورہ ہے مقامی قومیتوں اور مسلط شدہ یک قومی نظریہ کے مجاوروں کے درمیان بُعد صاف دیکھائی دے رہا ہے۔
بلوچستان کے سلگتے مسائل سب پر عیاں ہیں ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بہتر صورتحال نہیں طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف ریاست کے محکمے انسانی حقوق کو روندتے ہیں تو دوسری جانب مختلف الخیال انتہا پسند تنظیمیں ہیں جن کے جنونی کارکن لوگوں کا راستہ روک کر ان کا مذہب اور عقیدہ دریافت کرتے ہیں۔
انتہا پسندی کے حوالے سے بھارت کو ایک منفی ریاست کے طور پر پیش کرتے ہوئے اگر ہم اپنے چار اور دیکھنے کی زحمت کریں تو اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کرپائیں گے کہ ہمارے ہاں ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔
نماز جنازہ سے قبل اعلانات سنائی دیتے ہیں فلاں فلاں ’’قسم‘‘ کے لوگ نماز جنازہ میں شرکت نہ کریں۔ سٹریٹ جسٹس کا چلن عام ہورہا ہے ان سارے معاملات میں اگر ریاست کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں تو برا منانے کی بجائے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کر کے لوگوں کو یقین دلایا جانا چاہیے کہ ریاست قانون کی حاکمیت کو اپنا کُل سرمایہ سمجھتی ہے۔
بلوچستان میں بھی اصلاح احوال کے لئے راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پشتونوں کی شکایات اس لئے بھی سنی جانی چاہئیں کہ ماضی میں جو ڈھونگ ریاست کی سرپرستی میں رچائے گئے پشتون سماج آج اس کی قیمت ادا کررہا ہے۔
سرائیکی وسیب میں زمینوں کی غیرمقایوں اور خصوصاً سول ملٹری افسر شاہی کو الاٹ منٹ پر ناراضگی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی نصف صدی سے اوپر کا قصہ ہے پل دو پل کی بات نہیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے خود سے کئی گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوالئے مبارک و سلامت کے شور میں داخلی مسائل اور زمینی حقائق کو بھول نہ جائیے گا۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ گھمبیر اور سنگین مسائل بھل صفائی کے بغیر حل نہیں ہوں گے بھل صفائی کا آغاز اگر قانون کی حاکمیت اعلیٰ پر سمجھوتہ نہ کرنے سے ہو تو نتائج مثبت ہو سکتے ہیں لوگ شاکی ہیں ان کے شکوے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
رنگین اشتہارات والی تشہیری مہم پر اربوں رو پے اڑانے کی بجائے اس رقم سے معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جاہئے تھی ۔
ساعت بھر کے لئے رکئے بہت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ بلوچستان کے مسئلہ پر قومی پارلیمانی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا ہی ایک کمیشن انتہا پسندی کے دھندوں کے انسداد کے لئے بھی بنایا جانا ازبس ضروری ہے۔
پنجاب میں حکومت کی گندم پالیسی نے کسانوں کی جو درگت بنائی اس پر توجہ دیجئے۔ توجہ اور بھرپور توجہ دوسرے مسائل بھی مانگتے ہیں۔
بار دیگر عرض ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جو شکایات زبان زد عام ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے
حرف آخر یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی مستقل ہوگئی اب اپنے لوگوں کے مسائل اور شکایات کے ازالے کے لئے اقدامات کیجئے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ محبت ہی امن عالم کا ذریعہ ذرا اپنے ہاں بھی محبتوں کو فروغ دے کر دیکھ لیجئے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button